• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاق نامہ کے الفاظ ’’طلاق دے کر اپنی زوجیت سے آزاد کرتا ہوں‘‘کا حکم

استفتاء

معزز مفتیان کرام یہ طلاق کے دو نوٹس ہیں میں نے جب پہلا نوٹس  بھیجا تو اس میں ایک طلاق لکھی ہوئی تھی اور نیت یہ تھی کہ شاید اس ڈر سے میری بیوی واپس آجائے لیکن وہ نہیں آئی ،پھر میں نے دوسرا نوٹس عدت ہی میں پہلے نوٹس سے تقریبا ایک ماہ دس دن کے بعد تیار کروایا جس میں میری نیت دوسری طلاق کی تھی لیکن میں نے یہ نوٹس ابھی بھیجا نہیں تھا کہ اس سے پہلے ہی میری بیوی گھر آگئی ،میں حلفا یہ بات کہتا ہوں کہ دونوں نوٹسوں کے اندر میری نیت ایک ایک طلاق کی تھی باقی جو الفاظ ہیں مجھے ان کا معنی تک معلوم نہیں وہ نوٹس بنانے والوں کی طرف سے ہیں ،برائے مہربانی وضاحت فرمادیں کہ اس صورت میں کتنی  طلاقیں ہوئیں؟

نوٹ :یہ بات ایک سال پہلے  کی ہے اور اب ہم ایک سال سے اکٹھے رہتے ہیں ۔

پہلے نوٹس کی عبارت:’’من مقر مسماۃ اقرا عابد کے تقاضہ طلاق پر روبرو گوہان طلاق دے کر اپنی زوجیت سے آزاد کرتا ہوں من مقر اسے اپنے تن پر حرام کرتا ہے‘‘

دوسرے نوٹس کی عبارت:’’من مقر مسماۃ اقرا عابد کے تقاضہ طلاق پر روبرو گوہان طلاق ،طلاق دے کر اپنی زوجیت سے آزاد کرتا ہوں من مقر اسے اپنے تن پر حرام ، حرام کرتا ہے‘‘

وضاحت مطلوب ہے: کیا شوہر نے طلاق نامے کے دونوں نوٹس پڑھ کر دستخط کئے تھے؟

جواب وضاحت:دستخط کرنے سے   پہلے دونوں طلاقنامے ایک دفعہ پڑھے تھے پهر دستخط کيے تهے لیکن مجھے کچھ علم نہیں تھا کہ عبارت کا کیا مطلب ہے اس کے بعد  میرے  ايک بھائی نے جب دیکھا  تو کہا کہ یہ عبارت ٹھیک نہیں ہے اس میں ڈاؤٹ ہے الفاظ طلاق دو مرتبہ ہیں۔ ابھی تک دسرے گواہ کے دستخط بھی نہیں ہوئے تھے۔ وکیل سے جب پوچھا گیا تو وکیل نے کہا تھا کہ دوسرے طلاق نامے سے صرف دوسری طلاق  ہوگی  تیسری طلاق نہ ہوگی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں اور تین طلاق کے بعد بیوی شوہر پر حرام ہو جاتی ہے اور رجوع یا صلح کی بھی کوئی گنجائش نہیں رہتی،لہذا میاں بیوی تین طلاق کے بعد جتنا عرصہ اکٹھے رہے اس پر توبہ و استغفار کریں اور فورا جدائی اختیار کریں۔

توجیہ: پہلے طلاق نامے کے ان الفاظ سے” من مقر مسماۃ اقرا عابد کے تقاضہ طلاق پر روبرو گوہان طلاق دے کر اپنی زوجیت سے آزاد کرتا ہوں من مقر اسے اپنے تن پر حرام کرتا ہے "ایک بائنہ طلاق واقع ہوئی کیونکہ صریح الفاظ کے بعد کنایہ الفاظ سے طلاق کے عدد میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ وصف میں اضافہ ہوتا ہے۔ پھر تقریبا چالیس دن بعد شوہر نے جب دوسرے طلاق نامے پر دستخط کیے تو اس وقت چونکہ بیوی عدت میں تھی اس لئے اس سے دوسری اور تیسری طلاق بھی واقع ہو گئی کیونکہ طلاق نامہ کے اس جملے میں کہ” من مقر مسماۃ اقرا عابد کے تقاضہ طلاق پر روبرو گوہان طلاق ،طلاق دے کر اپنی زوجیت سے آزاد کرتا ہے ” دو دفعہ طلاق کا لفظ صراحۃ مذکور ہے اور طلاق بائنہ کے بعد عدت کے اندر صریح طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد طلاقنامہ میں مذکور یہ جملہ کہ” من مقر اسے اپنے تن پر حرام کرتا ہے "طلاق کا محل نہ ہونے کی وجہ سے لغو ہے۔

شامی(4/442)میں ہے:وفي التاترخانية: … ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها، وقع إن أقر الزوج أنه كتابه.

الدر المختار مع الرد(4/528)میں ہے:

(الصريح يلحق الصريح و)يلحق(البائن)بشرط العدة.

فتاوی ہندیہ(2/411)  میں ہے:وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية

امداد المفتین (521) میں ہے:سوال: زید نے اپنی بیوی کو مندرجہ ذیل تحریر بذریعہ رجسٹری ڈاک بھیج دی ’’۔۔۔۔۔۔تم کو بحکم شریعت طلاق دے دی ہے، اور میرا تم سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے، تم اس خط کو سن کر اپنے آپ کو مجھ سے علیحدہ سمجھنا۔۔۔۔‘‘اس سے طلاق ہوگئی ہے یا نہیں؟

الجواب:صورت مذکور میں شوہر کے پہلے الفاظ طلاق صریح کے ہیں ، اور دوسرے کنایہ کے ۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔الفاظ کنایہ میں اس جگہ باعتبارمراد و نیت متکلم کے عقلا تین احتمال ہیں ، تینوں احتمالوں پر حکم شرعی جداگانہ ہے، اول یہ کہ الفاظ کنایہ سے اس نے پہلی طلاق ہی مراد لی ہو، یعنی اس طلاقِ اول کی توضیح و تفسیر اور بیان حکم اس سے مقصود ہو، دوسرے یہ کہ ان الفاظ سے مستقل طلاق کی نیت ہو، تیسرے یہ کہ ان الفاظ سے کچھ کسی چیز کی نیت نہ ہو پہلی صورت میں ان الفاظ سے ایک طلاق بائنہ واقع ہوگی۔  لما فى الخلاصة وفى الفتاوى لو قال لامرأته أنت طالق ثم قال للناس زن من بر من حرام است و عنى به الأول أو لا نية له فقد جعل الرجعي بائنا و إن عنى به الابتداء فهي طالق آخر بائن. (خلاصۃ الفتاوی صفحہ 82 جلد 2)…..اور دوسری صورت میں دو طلاقیں بائنہ واقع ہو جائیں گی جیسا کہ خلاصۃ الفتاوی کی عبارت مذکورہ سے معلوم ہوا اور اس کی توضیح درمختار میں اس طرح ہے "ولو نوى بطالق واحدة و بنحو بائن أخرى فيقع ثنتان بائنتان.اور تیسری صورت میں بعض عبارات فقہیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ الفاظ کنایہ ہدر و بیکار ہو جائیں گے اور طلاق رجعی اول باقی رہے گی۔۔۔۔۔اور بعض عبارات فقہیہ اس صورت میں بھی طلاق بائنہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔ ہمارے عرف میں اس عبارت کاصاف مطلب یہی سمجھاجاتاہےکہ متکلم اپنےلفظوں سےکہ (میرا تم سے کوئی تعلق نہیں) اسی طلاق کوبیان کررہاہےجس کواس سے پہلے صراحۃ ذکر کیا گیا ہے ۔۔۔۔الخ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved