• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاق کے میسج   کا اقرار کرنے  کا حکم

استفتاء

محترم مفتیان کرام!نہایت ادب سے گزارش ہے کہ میں پہلے بھی آپ کے ادارے سے فتویٰ لے چکا ہوں جس پر آپ کی خدمات کا تہہ دل سے مشکور ہوں، اس فتوی میں آپ حضرات نے یہ لکھا ہے کہ میسج کی تحریر سے نیت کے بغیر طلاق واقع نہیں ہوتی، لیکن جب یہ واقعہ ہوا تب میں اس بات سے لاعلم تھا کہ نیت کے بغیر میسج کےذریعے طلاق واقع نہیں ہوتی، اس لیے میں نے یہ واقعہ ہونے کے بعد اپنی فیملی اور قریبی رشتہ داروں کو اس بات کی اطلاع بھی کردی کہ مجھ سے یہ عمل ہوگیاہے، اطلاع کے الفاظ یہ تھے کہ ’’میں نے اپنی بیوی کو طلاق لکھ  دی ‘‘ انہوں نے پوچھا کیسے لکھی تھی تو میں نے کہا میسج بھیجا تھا، کچھ احباب کا کہنا ہے کہ چونکہ میں نے اس بات کی اطلاع دی ہے لہذا یہ ایک قسم کا طلاق کا اقرار ہو گیا ہے، راہنمائی فرمائیں  کیا کہ مذکورہ صورت میں طلاق واقع ہو گئی ہے  تاکہ ابہام دور ہو جائے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں جب آپ نے اپنے رشتہ داروں کو ان الفاظ میں اطلاع دی کہ  ’’میں نے اپنی بیوی کو طلاق لکھ  دی‘‘ تو ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، کیونکہ یہ  طلاق دینے کا اقرار نہیں بلکہ طلاق کی غیرمرسومہ تحریر لکھنے کا اقرار ہے ،  چونکہ غیرمرسومہ تحریر سےنیت کے بغیر طلاق واقع نہیں ہوتی، لہذا ایسی تحریر کے اقرار سے بھی  کوئی طلاق واقع نہ ہوگی۔

فتاوی شامی (442/4) میں ہے:وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق یقع وإلا لا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved