• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر کے الفاظ "تم مجھ پر طلاق ہو میں نے اس کو طلاق دے دی ہے ،لے جاؤ ”     کا حکم

استفتاء

اپنی  بیوی کو مخاطب کر  کے غصے کی حالت میں   یہ الفاظ ایک ہی وقت میں دو  دفعہ بولے کہ "تہ پہ ماطلاقہ اے”(تم مجھ پر طلاق ہو )۔5 منٹ بعد اپنی  بیوی کی بہن کو میں نے کہا کہ ” ما طلاقہ کرے دہ ،بوئے زہ "(میں نے  طلا ق دے دی ہے ،لے جاؤ)۔پھر 45 منٹ بعد دوبارہ  بیوی کی بہن کو میں نے کہا کہ”  ما طلاقہ کرے دہ ،بوئے زہ "(میں نے  طلاق دے دی ہے ، لے جاؤ)۔ اس کے بعد ہم ساتھ ہی رہتے رہے ہیں اور ایک ہفتہ بعد میں نے بیوی سے ازدواجی تعلق بھی قائم کیا تھا۔

نوٹ:میری نیت میں یہ نہیں تھا کہ میں اسکو  طلاق  دوں بیوی کو ڈرانے کے لئے    یہ الفاظ کہے تھے۔

بیوی کا بیان:بیوی کہتی ہے  آپ   نے مجھ سے مخاطب ہو کر  د و دفعہ یہ  الفاظ کہے کہ” تم مجھ پر طلاق ہو ،تم مجھ پر طلاق ہو ” 3 منٹ بعد آپ نے میری بہن کو کہا کہ اسکو لے جاؤ ۔پھر تقریبا 25 منٹ بعد آپ نے میری بہن کو کہا کہ اسکو لے جاؤ ۔  آپ نے میری بہن کو یہ نہیں کہا کہ میں نے طلاق دے دی ہے،لے جاؤ۔

وضاحت مطلوب ہے:  کیا شوہر نےاس واقعہ کے علاوہ بھی  کبھی  طلاق دی ہے؟

جواب وضاحت: اس کے علاوہ طلاق نہیں دی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں دو   رجعی طلاقیں واقع ہو گئی ہیں ،پھر  چونکہ عدت کے اندر رجوع  ہو گیا تھا لہذا نکاح  باقی ہے۔

نوٹ:آئندہ شوہر کے پاس صرف ایک  طلاق کا حق باقی ہے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں جب شوہر نے اپنی بیوی کو مخاطب کر کے دو دفعہ یہ کہا کہ ’’تم مجھ پرطلاق ہو ‘‘ تو چونکہ یہ جملہ طلاق کے لیے صریح ہے  اس  لیے  اس سے دو رجعی طلاقیں واقع ہو گئیں۔ ا س کے بعد جب شوہر نے بیوی کی بہن کو یہ کہا کہ ’’ میں نے اسے طلاق دے دی ہے ‘‘  اس سے مزید طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ یہ جملہ پہلی دی  ہوئی طلاق کی خبر ہے   ۔ پھر اس کے بعد یہ جملہ کہ "لے جاؤ”  چونکہ سابقہ جملہ کے ساتھ مل کر کلام واحد ہے  اور اس جملہ سے شوہر کی طلاق کی نیت بھی نہیں تھی لہذا اس جملہ سے  نہ تو طلاق کے وصف  میں اضافہ ہوگا اور نہ عدد میں ۔پھر اس کے بعد چونکہ میاں بیوی اکٹھے رہتے  رہے لہذا رجوع ہو گیا اور نکاح برقرار ہے۔

شامی (450/4) میں ہے: و من الالفاظ المستعملة:الطلاق يلزمني،والحرام يلزمني،و علي الطلاق،و علي الحرام فيقع بلا نية للعرف۔شامی(4/521)میں ہے:فروع:كرر لفظ الطلاق وقع الكل،وان نوي التاكيد دين۔

بزازیہ(2/264علی ہامش الہندیہ ۔مطبوعہ:مکتبہ رشیدیہ )میں ہے:و في البزازية:طلقها ثم قال طلقتك او قال طلاق دادم ترا يقع اخري ولو قال طلاق داده ام او كنت طلقتك لا يقع اخري لانه اخبار۔

فتاوی تاتارخانیہ(4/470)میں ہے:وفي الحاوى:قالت با تو نمي باشم فقال نا باشيده گير قالت نيكو نيكو طلاق ده تا بروم فقال داده گير وبرو قال تقع واحدة ان نوي وقوله "برو”مع ما قبله كلام واحد لا يقع ثانيا بقوله”برو”الا بالنية۔فتاوی عالمگیری (1/386)میں ہے:فى النسفية سئل عن امرأة قالت لزوجها:با تو نمي باشم قال:نا باشيده گير فقالت:اين چه سخن بود آن كن خداي تعالي ورسول خدا فرموده است بگو مرا طلاق تا بروم فقال:طلاق كرده گير برو”هل يقع الطلاق ان نوي الايقاع تقع واحدة،قيل:أليس قوله”طلاق كرده گير”واحدة وقوله "برو”واحدة فقال يراد بهما الواحدة الا ان ينوي ثنتين فتصح كذا في التتارخانيةفتاوی عالمگیری (2/408)میں ہے:واذا طلق الرجل امراته تطليقة رجعية او تطليقتين فله ان يراجعها في عدتها رضيت بذالك او لم ترض كذا في الهداية۔

بدائع الصنائع(3/283)میں ہے:اما الطلاق الرجعي فالحكم الاصلي له هو نقصان العدد فاما زوال الملك وحل الوطء فليس بحكم اصلي له لازم حتي لا يثبت للحال وانما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة فان طلقها ولم يراجعها بل تركها حتي انقضت عدتها بانت۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved