• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر نے ایک بائنہ طلاق کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد تین طلاقیں دے دیں تو کیا تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں

استفتاء

بعد سلام عرض ہے کہ میری شادی 24 فروری، 2017ء میں ہوئی۔ شادی کے ایک سال بعد ہم میاں بیوی کے درمیان اختلافات شروع ہوگئے، پھر دو سال گزرنے کے بعد یہ اختلافات زیادہ ہوگئے اور مارچ 2019 کو لڑائی کے درمیان میری بیوی مطالبہ طلاق کرنے لگی تو میں نے جواب میں اسے کہا کہ ’’دفع ہو، تم آزاد ہو‘‘ اس کے بعد ہم ساتھ ہی رہتے رہے اور تجدیدِ نکاح وغیرہ بھی نہیں کیا۔ پھر کافی وقت گزرنے کے بعد 23 ستمبر 2020ء کو لڑائی کے درمیان شدید غصے کی حالت میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ برائے مہربانی مفتی صاحب میرے اس مسئلے میں میری رہنمائی فرمائیں کہ کیا دوبارہ اکٹھے رہنے کی کوئی گنجائش ہے؟شکریہ

وضاحت مطلوب ہے کہ: (۱)آپ نے یہ الفاظ کہ ’’دفع ہو، تم آزاد ہو‘‘ کس نیت سے کہے تھے؟

(۲) کیا آپ کی اہلیہ کو مذکورہ الفاظ بولنے کے بعد اور تین طلاق سے پہلے کم از کم تین حیض آچکے تھے؟

(۳) تین طلاق کے الفاظ کیا تھے؟

جوابِ وضاحت:  (۱)طلاق کی نیت سے ہی کہے تھے لیکن میں یہ سمجھ رہا تھا کہ طلاق صرف طلاق کے لفظ سے ہی ہوتی ہے اس لیے اکٹھے رہتے رہے۔

(۲)پیریڈ کا اس کو کوئی مسئلہ نہیں، عادت کے مطابق آتے تھے، آزاد والے الفاظ بولنے کے بعد تین طلاق سے پہلے تین سے زیادہ دفعہ آچکے تھے۔

(۳) میں نے تجھے طلاق دی، طلاق، طلاق۔

نوٹ: بیوی سے فون کے ذریعے رابطہ کیا گیا تو اس نے شوہر کے بیان کی مکمل تصدیق کی ۔ (رابطہ کنندہ: صہیب ظفر)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں مارچ 2019ء کو بیوی کے مطالبہ طلاق کرنے پر دورانِ لڑائی شوہر نے جو الفاظ استعمال کیے یعنی ’’دفع ہو، تم آزاد ہو‘‘ ان الفاظ سے اگر واقعتاً شوہر کی نیت طلاق کی تھی تو مذکورہ صورت میں ایک بائنہ طلاق واقع ہوچکی ہے جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہوچکا ہے لہٰذا میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو گواہوں کی موجودگی میں نئے حق مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرکے رہ سکتے ہیں اور اگر ان الفاظ سے طلاق کی نیت نہیں تھی تو مذکورہ صورت میں تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوگئی ہے لہٰذا نہ صلح ہوسکتی ہے اور نہ رجوع کی گنجائش ہے۔

نوٹ: ایک بائنہ طلاق واقع ہونے کی صورت میں دوبارہ نکاح کرنے کے بعد شوہر کو صرف دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں مارچ 2019ء میں شوہر نے ایک لڑائی کے دوران بیوی کے مطالبہ طلاق کرنے پر جو الفاظ استعمال کیے کہ ’’دفع ہو، تم آزاد ہو‘‘یہ الفاظ کنایاتِ طلاق میں سے ہیں جن سے شوہر كی طلاق کی نیت ہونے کی صورت میں ایک بائنہ طلاق واقع ہوجاتی ہے، جس کے بعد دوبارہ اکٹھے رہنے کے لیے نیا نکاح کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مذکورہ صورت میں اگر واقعتاً شوہر نے یہ الفاظ طلاق کی نیت سے ہی کہے تھے تو ان سے ایک بائنہ طلاق واقع ہوگئی اور شوہر نے عدت کے اندر دوبارہ نکاح بھی نہیں کیا تھا اس لیے عدت پوری ہونے پر بیوی،شوہر کے نکاح سے نکل گئی۔ اس کے بعد ستمبر 2020ء کو لڑائی کے دوران جب شوہر نے تین طلاقیں دیں تو اس وقت چونکہ بیوی نہ شوہر کے نکاح میں تھی اور نہ طلاق کی عدت میں تھی اس لیے طلاق کا محل نہ پائے جانے کی وجہ سے تین طلاق کے الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔   لیکن اگر شوہر نے کنائی الفاظ یعنی ’’دفع ہو، تم آزاد ہو‘‘ سے طلاق کی نیت نہیں کی تھی تو ان الفاظ سے شوہر کے حق طلاق واقع نہیں ہوئی تھی کیونکہ کنائی الفاظ سے دیانتاً طلاق کا واقع ہونا ہر حال میں شوہر کی نیت پر موقوف ہوتا ہے لہذا بعد میں جب شوہر نے تین طلاقیں دیں تو اس وقت بیوی چونکہ نکاح میں تھی اس لیے تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں۔

تین طلاق تک میاں بیوی کے اکٹھے رہنے کی وجہ سے اگرچہ بیوی موطوءۃ بالشبہ ہونے کی وجہ سے عدت میں تھی لیکن طلاق کی عدت گزرنے کے بعد وطی بالشبہ کی عدت میں مزید طلاق واقع نہیں ہوتی۔

در مختار مع رد المحتار (4/516) میں ہے:(ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب(قوله قضاء) قيد به لأنه لا يقع ديانة بدون النية، ولو وجدت دلالة الحال فوقوعه بواحد من النية أو دلالة الحال إنما هو في القضاء فقط كما هو صريح البحر وغيره

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد

در مختار (5/183) میں ہے:(وهي [العدة] في) حق (حرة) ولو كتابية تحت مسلم (تحيض لطلاق) ولو رجعيا …… (بعد الدخول حقيقة أو حكما) …… (ثلاث حيض كوامل) …… (و) كذا (الموطوءة بشبهة)

فتاویٰ شامیہ (4/419) میں ہے:قوله: (ومحله المنكوحة) أي ولو معتدة عن طلاق رجعي أو بائن غير ثلاث في حرة وثنتين في أمة..

ہدایہ (2/409، باب الرجعۃ) میں ہے:‌‌فصل فيما تحل به المطلقة: "وإذا کان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها” لأن حل المحلية باق لأن زواله معلق بالطلقة الثالثة فينعدم قبلهوفي فتح القدير تحته: قوله: (لأن زواله) مرجع الضمير الحل وضمير فينعدم للزوال.

در مختار مع رد المحتار (5/202) میں ہے:(وإذا وطئت المعتدة بشبهة) ولو من المطلق (وجبت عدة أخرى) لتجدد السبب (وتداخلتا، والمرئي) من الحيض (منها، و) عليها أن (تتم) العدة (الثانية إن تمت الأولى)(قوله: بشبهة) متعلق بقوله وطئت، وذلك كالموطوءة للزوج في العدة بعد الثلاث بنكاح، وكذا بدونه إذا قال ظننت أنها تحل لي، أو بعدما أبانها بألفاظ الكناية، وتمامه في الفتح. وجعل في النوازل البائن كالثلاث والصدر لم يجعل الطلاق على مال والخلع كالثلاث، وذكر أنه لو خالعها ولو بمال ثم وطئها في العدة عالما بالحرمة تستأنف العدة لكل وطأة وتتداخل العدد إلى أن تنقضي الأولى، وبعده تكون الثانية والثالثة عدة الوطء لا الطلاق حتى لا يقع فيها طلاق آخر ولا تجب فيها نفقة اهـ وما قاله الصدر هو ظاهر ما قدمناه آنفا عن الفتح حيث جعل الوطء بعد الإبانة بألفاظ الكناية من الوطء بشبهة أي لقول بعض الأئمة بأنه لا يقع بها البائن فأورث الخلاف فيها شبهة

ہندیہ (1/532) میں ہے:فالأصل أن المعتدة بعدة الطلاق يلحقها الطلاق والمعتدة بعدة الوطء لا يلحقها الطلاق

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved