• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاق کی عدت میں عدالت جانے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک عورت طلاق کی عدت میں ہے، اور اس نے عدالت میں بچوں کو لینے کا کیس دائر کر رکھا ہے، کیا وہ عدالت جا سکتی ہے؟

وضاحت مطلوب ہے کہ

کیا عدالت میں عورت کا جانا ضروری ہے، کوئی دوسرا شخص اس کی نمائندگی نہیں کر سکتا؟

جواب وضاحت: عورت کا عدالت میں حاضر ہونا ضروری ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر واقعتا عورت کا عدالت میں حاضر ہونا ضروری ہے تو وہ عدالت جا سکتی ہے، لیکن عدالت سے فارغ ہو کر فورا گھر واپس آنا  ضروری ہے  ۔

درمختار (5/229) میں ہے:(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات.فتاوی محمودیہ (13/401) میں ہے:سوال:ہندہ کے شوہر کو چاقو مار کر ہلاک کر دیا گیا، اس جگہ ہندہ بھی موجود تھی، اب ہندہ کو پولیس ملزموں کی شناخت کے لیے عدت کی حالت میں طلب کر رہی ہے، تو ہندہ شناخت کرنے کے لیے حالت عدت میں تھانے میں یا کسی بھی جگہ جانا جائز ہے یا نہیں؟

الجواب:قاتل کی شناخت کرنے کے لیے عدت والے مکان سے عدالت میں جانا درست ہے، مگر رات کو پھر اپنے مکان میں پہنچ جائے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved