• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر کو الفاظِ طلاق میں شک ہوجائے تو کیا حکم ہے؟

استفتاء

1۔ میرا ایک مسئلہ ہے کہ میں نے اپنی بیوی کو کہا کہ ’’یہ چیزیں اور حرکتیں نہ کرو، ورنہ آپ کو میں طلاق دوں گا‘‘۔میں اور بیوی دونوں یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ’’دوں گا‘‘ ہی بولا ہے لیکن پھر بھی مجھے تھوڑا شک ہے کہ میں نے ’’دوں گا‘‘ بولا ہے یا پھر ’’ میں نے طلاق دیا‘‘ بولا ہے، اس مسئلہ کا کیا حل ہے؟ کیا طلاق تو واقع نہ ہوگی؟

2۔ میں نے بیوی کو فون کی اجازت نہیں دی تھی، بیوی نے فون استعمال کرلیا۔ جس کی وجہ سے فون استعمال کرنے سے منع کیا تھا اس کا فون نہیں آیا تھا، باقی کالیں آئی تھیں، باقی کالوں سے بیوی کو منع بھی نہیں کیا تھا اور بیوی بھی یہی کہتی ہے کہ باقی کالوں کا نہیں کہا تھا۔ کسی نے کہا کہ اس پابندی سے بھی طلاق ہوجاتی ہے، کیا ایسا ہی ہے؟ کیا میں بیوی سے یہ پابندی ختم کرسکتا ہوں کہ جو بھی کال آئے اسے اٹھا لے؟

وضاحت مطلوب ہے کہ: جب آپ نے بیوی کو فون سے منع کیا تھا تو اس وقت کیا الفاظ کہے تھے؟

جوابِ وضاحت: میں نے کہا تھا کہ آپ کو میری طرف سے فون کی اجازت نہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ طلاق واقع ہونے کے لیے محض شک ہونا کافی نہیں بلکہ طلاق دینے کا یقین یا غالب گمان ہونا ضروری ہے۔ مذکورہ صورت میں شوہر کو جس جملے کا غالب گمان ہے وہ مستقبل کا جملہ یعنی ’’طلاق دوں گا‘‘  ہے اور مستقبل کے جملے سے طلاق واقع نہیں ہوتی کیونکہ اس میں شوہر فی الحال طلاق واقع نہیں کرتا بلکہ مستقبل میں طلاق دینے کے ارادے کا اظہار کرتا ہے اور طلاق کے ارادے کے اظہار سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔لہٰذا مذکورہ صورت میں طلاق واقع نہ ہوگی۔

رد المحتار (3/408) میں ہے:وغلبة الظن حجة موجبة للعمل كما صرحوا به.

الاشباہ والنظائر (1/222. في خاتمة القاعدة الثالثة: اليقين لا يزول بالشك) میں ہے:الثانية: الشك تساوي الطرفين والظن الطرف الراجح وهو ترجيح جهة الصواب والوهم رجحان جهة الخطأ وأما أكبر الرأي وغالب الظن فهو الطرف الراجح إذا أخذ به القلب، وهو المعتبر عند الفقهاء كما ذكره اللامشي في أصوله وحاصله: أن الظن عند الفقهاء من قبيل الشك لأنهم يريدون به التردد بين وجود الشيء وعدمه سواء استويا أو ترجح أحدهما وكذا قالوا في كتاب الإقرار: لو قال: له علي ألف درهم في ظني لا يلزمه شيء ؛ لأنه للشك ( انتهى ).وغالب الظن عندهم ملحق باليقين وهو الذي يبتنى عليه الأحكام يعرف ذلك من تصفح كلامهم في الأبواب. صرحوا في نواقض الوضوء بأن الغالب كالمتحقق وصرحوا في الطلاق بأنه إذا ظن الوقوع لم يقع وإذا غلب على ظنه وقع.

ہندیہ (1/384) میں ہے:فقال الزوج: طلاق میکنم طلاق میکنم وکرر ثلاثا طلقت ثلاثا بخلاف قوله: كنم (سأطلق) لأنه استقبال فلم يكن تحقيقا بالتشكيك. وفي المحىط لو قال بالعربىة أطلق لا يكون طلاقا إلا إذا غلب استعماله للحال فيكون طلاقا.

2۔ طلاق واقع ہونے کے لیے طلاق کا لفظ ہونا ضروری ہے، چاہے وہ لفظ طلاق کے لیے صریح ہو یا کنایہ۔  مذکورہ صورت میں شوہر نے بیوی کو فون سے منع کرتے ہوئے جو الفاظ استعمال کیے ہیں ان میں طلاق کا کوئی لفظ استعمال نہیں کیا گیا اس لیے اس صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔اور شوہر نے بیوی پر جو پابندی لگائی ہے اسے وہ جب چاہے ختم کرسکتا ہے۔

در مختار مع رد المحتار (4/420) میں ہے:ورکنه [الطلاق] لفظ مخصوصقوله: (ورکنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية..ہندیہ (1/376) میں ہے:کل  لفظ  لا یحتمل الطلاق لا یقع به الطلاق وان نوی مثل قوله بارك الله علیك او قال لها  اطعمینی او اسقینی و نحو ذلك.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved