• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

سادہ کاغذ پر ’’تلاق، تلاق، تلاق‘‘ لکھنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک بار شوہر اور بیوی کے درمیان جھگڑا ہوا تو باتوں باتوں میں بیوی نے شوہر سے کہا کہ مجھے بس چھوڑ دو تم مجھے لکھ کر دو کہ میں نے تمہیں طلاق دی ہے، تو شوہر نے طلاق کا لفظ زبان سے نہیں بولا، بیوی کے بار بار کہنے پر شوہر نے سادہ کاغذ پر اس طرح لکھ کر دیا تھا ’’تلاق، تلاق، تلاق‘‘  شوہر کا کہنا ہے کہ اس وقت میری سمجھ میں بھی نہیں آیا کہ لفظ طلاق ’’ط‘‘ کے ساتھ لکھا جاتا ہے، میں نے ’’ت‘‘  کے ساتھ ’’تلاق‘‘ لکھ دیا، پھر کچھ دن بعد ہمارے گھر والے اور سسرال والے جمع ہوئے، میری بہن نے اپنے سسر کو وہ کاغذ دکھایا جس پر طلاق لکھی ہوئی تھی، میری بہن کے سسر  ایک قاضی تھے جو تقریباً 38 سال تک مدارس میں درس و تدریس سے منسلک رہے تھے، اور طالبان کے دور میں یہاں قاضی (سیشن جج) کے عہدے پر فائز رہے، بہت قابل اور سمجھدار قاضی تھے، اب وہ شہید ہو چکے ہیں، اس وقت انہوں نے یہ جواب دیا تھا کہ طلاق نہیں ہوئی، اس لئے میاں بیوی اکٹھے رہتے رہے اور اب ان کے چار بچے ہیں، اس بارے میں  آپ حضرات کی کیا رائے ہے کہ مذکورہ صورت میں طلاق واقع ہو گئی تھی یا نہیں؟

نوٹ: یہ میرے بہنوئی کے بھائی کا مسئلہ ہے، اس بات کو تقریباً سات آٹھ سال گزر چکے ہیں، اس آدمی کی بیوی سے ایک مدرسہ کی طالبہ نے کہا ہے کہ آپ کسی دارالافتاء سے فتوی لیں، ہو سکتا ہے کہ آپ پر طلاق واقع ہو گئی ہو اس لیے بیوی نے اپنی تسلی کے لیے آپ سے مسئلہ پوچھا ہے۔

وضاحت مطلوب ہے کہ

یہ الفاظ لکھتے وقت شوہر کی طلاق کی نیت تھی یا نہیں؟

جواب وضاحت: شوہر کا کہنا ہے کہ میری طلاق کی نیت نہیں تھی، ڈرانے دھمکانے کی نیت سے یہ الفاظ لکھے تھے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں  تحریر کے الفاظ ’’تلاق، تلاق، تلاق‘‘  لکھتے وقت اگر واقعتا شوہر کی طلاق کی نیت نہیں تھی تو کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، تاہم طلاق کی نیت نہ ہونے پر شوہر کو بیوی کے سامنے قسم دینی ہو گی، اور اگر واقعتا طلاق کی نیت تھی تو تین طلاقیں واقع ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے لہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے،کیونکہ مذکورہ تحریر کتابت غیر مرسومہ ہے، اور کتابت غیر مرسومہ سے شوہرکی طلاق کی نیت ہو تو طلاق واقع ہوتی ہے، نیت کے بغیر طلاق واقع نہیں ہوتی۔

فتاوی شامی (442/4) میں ہے:قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب. وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته. وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكنه فهمه وقراءته. ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق یقع وإلا لا.

درمختار مع ردالمحتار (96/4) میں ہے:وأما الطلاق فيقع بها قضاء كما في أوائل الأشباهقوله: (وأما الطلاق فيقع بها إلخ) أي بالألفاظ المصحفة كتلاق وتلاك وطلاك وطلاغ وتلاغ. قال في البحر: فيقع قضاء ولا يصدق إلا إذا أشهد على ذلك قبل التكلم بأن قال امرأتي تطلب مني الطلاق وأنا لا أطلق فأقول هذا، ولا فرق بين العالم والجاهل وعليه الفتوى. اهـ.ہدایہ (/2391) میں ہے:وفي كل موضع يصدق الزوج على نفي النية إنما يصدق مع اليمين لأنه أمين في الإخبار عما في ضميره والقول قول الأمين مع اليمين.بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved