• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

اگر میں تجھے قتل نہ کروں تو میری بیوی مجھ پر طلاق ہے” کہنےکاحکم

استفتاء

ایک شخص نے کسی کو فون پر کہا کہ میں تجھے قتل کروں گا اگر میں تجھے قتل نہ کروں تو میری بیوی مجھ پر طلاق ہے کیا طلاق ہوگی یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہرنےاگراس آدمی کوقتل نہ کیا توجب وہ آدمی مرےگا یاشوہر خود مرےگا تو اس  وقت اس کی بیوی پر ایک رجعی طلاق واقع ہوگی۔جس آدمی کو قتل کرنے پر طلاق کو معلق کیا ہے اس کے مرنے کی صورت میں جب رجعی طلاق واقع ہوگی تو شوہر عدت کے اندر رجوع کر سکے گا اگر عدت کے اندر رجوع نہ کیا تو عدت کے بعد دوبارہ اکٹھے رہنے کے لئےگواہوں(یعنی دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں)  کی موجودگی میں نئے حق مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہوگا۔ نیزخودشوہر کےمرنے  کی صورت میں روح نکلنےسےمتصل پہلے ایک رجعی طلاق واقع ہوگی   جس  کےدنیاوی احکامات  یہ ہیں :

1-بیوی  کی عدت عدتِ وفات یعنی چار ماہ دس دِن یاحاملہ ہونے کی صورت میں  وضع حمل(بچہ پیدا ہونے)  تک ہوگی ۔

2-بیوی شوہر کی وارث  بھی ہوگی۔

توجیہ:اگر طلاق کو کسی کام کےنہ کرنےپر معلق کیا جائے اوراس کام کو نہ کرنے کی کوئی مدت متعین نہ کی جائے تو طلاق اس وقت واقع ہوتی ہے جب اس کام کو کرنا ممکن نہ رہے اس لئےمذکورہ صورت میں جب تک قسم کھانے والا اور جس کو قتل کرنے کی قسم کھائی ہےوہ دونوں زندہ ہیں اس وقت تک قتل کا امکان باقی ہےلہٰذا دونوں میں سے کسی ایک کی موت سے پہلےشوہر حانث نہ ہوگا اور طلاق واقع نہ ہو گی۔

البتہ اگر دونوں میں سے کوئی ایک فوت ہوگیا تو قتل کے ممکن نہ رہنے کی وجہ سے شوہر حانث ہو جائے گا اور طلاق واقع ہو جائے گی۔

نوٹ:رجوع کرنے یا دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں شوہر کو آئندہ دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔ نیز مذکورہ تفصیل نفس مسئلہ کی رو سے ہے اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مذکورہ شخص طلاق سے بچنے کے لیے متعلقہ شخص کو قتل کر دے کیونکہ ایسا کرنا کا  ناجائز اور حرام ہوگا۔

بحر الرائق (4/390)ميں ہے:قوله:(ومن حلف على معصية ينبغي أن يحنث)…حاصلها أن المحلوف عليه أنواع فعل معصية أو ترك فرض فالحنث واجب……وأطلق في المعصية فشمل النفي والإثبات فالأول مثل أن لا يصلي أو لا يكلم أباه فيجب الحنث بالصلاة وكلام الأب والثاني نحو ليقتلن فلانا.

بحرالرائق(4/524)میں ہے:كل فعل حلف أنه يفعله في المستقبل، وأطلقه، ولم يقيده بوقت لم يحنث حتى يقع الإياس عن البر مثل ليضربن زيدا أو ليعطين فلانة أو ليطلقن زوجته وتحقق اليأس عن البر يكون بفوت أحدهما فلذا قال في غاية البيان، وأصل هذا أن الحالف في اليمين المطلقة لا يحنث ما دام الحالف والمحلوف عليه قائمين لتصور البر فإذا فات أحدهما فإنه يحنث اهـ.

درمختارمع ردالمحتار(5/572)میں ہے:حلف(ليأتينه)فهو أن يأتي منزله أو حانوته لقيه أم لا(فلو لم يأته حتى مات)أحدهما(حنث في آخر حياته)وكذا كل يمين مطلقة.(قوله حنث في آخر حياته)أي حياة أحدهما،فلو كانت يمينه بالطلاق فماتت المرأة تبقى اليمين لامكان الإتيان بعد موتها، نعم لو كان الشرط طلاقها مثل إن لم أطلقك فأنت طالق ثلاثا يحنث بموتها أيضا لتحقق اليأس عن الشرط بموتها إذ لا يمكن طلاقها بعده.

فتاوی دارالعلوم دیوبند(10/69)میں ہے:

سوال : زید نے اثنائے گفتگو میں کہہ دیا کہ اگر میں نے عمر کو قتل نہ کیا تو میری منکوحہ میرے اوپر تین شرائط پر طلاق ہے ۔ اور یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ تین شرط جو اس نے کہی ہیں اس کی نیت کیسی تھی ۔ اب وہ عمر کے قتل پر قادر نہ ہوا ۔ پس  ایسی طلاق صحیح ہوسکتی ہے یا نہیں ؟

جواب : ایسی یمین مطلقہ میں آخر حیات میں حانث ہوتاہے ، کیونکہ ممکن ہے کہ قبل الموت کو کر لیوےقال في الدر المختار حلف ليأتينه الخ فلو لم يأته حتى مات أحدهما حنث في آخر حياته وكذا كل يمين مطلقة. قال فی الشامی قوله:وکذا کل یمین مطلقة الخ ای لا خصوصية للایتان بل کل فعل حلف ان یفعله فی المستقبل واطلقه ولم یقیده بوقت لم یحنث حتی یقع الیاس عن البر مثل لیضر بن زیدا الخ.

ہندیہ (1/470) میں ہے:وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية.

البنایہ شرح الھدایہ(5/453)میں ہے:(والطلاق الذي يملك الرجعة فيه ترث به في جميع الوجوه)ش:اي في جميع الصور،سواءنجز او علق….ان الطلاق الرجعي لايزيل النكاح حتي يحل الوطء فكان السبب اي سبب الارث(قائما)اي وهوالنكاح حكما (وكل ما ذكرنا انها ترث فإنما ترث اذا مات وهي في العدة).بحر الرائق (4/231)میں ہے:لو طلقها رجعيا فعدتها عدة الوفاة سواء طلقها في الصحة أو في المرض بطريق انتقال عدة الطلا إلى عدة الوفاة وترث منه…..لأن النكاح باق من كل وجه.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved