• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر کا  کہنا کہ میں تینوں طلاق دیناں کا  حکم

استفتاء

بیوی کا بیان :

میرے شوہر نے تقریبا ایک مہینہ پہلے مجھے ان الفاظ میں طلاق دی کہ "میں  تینوں طلاق دیناں "(میں تجھے طلاق دیتا  ہوں ) اس کے  بعد ہماری صلح صفائی ہوئی(یعنی شوہر نے رجوع کرلیا)، اور دوسرے دن پھر یہی الفاظ بولے کہ "میں تینوں طلاق دیناں "(میں تجھے طلاق دیتا ہوں )  اس کے بعدشوہر نے رجوع کرلیا ،اس کے  ایک مہینہ بعد پھرمیرے شوہر نے کہا  کہ ” میں تینوں طلاق دیناں "( میں تجھے طلاق دیتا ہوں) اب میرا شوہر کہتا ہے کہ میں نے دل سے طلاق نہیں دی۔اس بارے  میں رہنمائی فرمائیں  کہ کیا طلاق ہوچکی ہے؟

شوہر کا بیان :

میری بیٹی ہسپتال میں تھی ،اسی کو لےکر بیوی سےجھگڑا ہوا ،تو میں نے اپنی بیوی سے کہاکہ "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں "جھگڑا چلتا رہا میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ "بس کر”وہ بس نہیں کر رہی تھی تو میں نے پھر اس سے کہا کہ” میں تمہیں طلاق دیتا ہوں”یہ تقریبا پچھلے مہینے(25،26دسمبر)کا واقعہ ہے ۔اب چار دن پہلے جھگڑے کے دوران  تیسری دفعہ بھی میں  نے طلاق دے دی  لیکن طلاق کے  وہ الفاظ مجھے یا د نہیں ہیں اور میں نارمل غصے میں تھا ،اور طلاق دیتے وقت مجھے پتہ تھا کہ میں کیا کہہ رہاہوں ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگرچہ شوہر نے تینوں مرتبہ غصے کی حالت میں طلاق دی ہے لیکن غصے کی نوعیت ایسی نہیں تھی کہ اسے معلوم ہی نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کررہاہے اور   نہ  ہی اس موقع پر شوہر سے خلاف عادت کوئی قول یا  فعل صادرہوا،غصے کی ایسی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے لہذا مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں جن کی وجہ   سے بیوی شوہر پر حرام ہوگئی ہےلہذا اب نہ صلح ہوسکتی ہے اور نہ رجوع کی گنجائش ہے ۔

توجیہ:مذکورہ صورت میں  بیوی کے بیان کے مطابق جب شوہرنے کہا  کہ "میں تینوں طلاق دیناں "(یعنی میں تجھے طلاق دیتا ہوں )  تو اس سے ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی  کیونکہ یہ الفاظ طلاق کے معنی میں صریح ہیں ، اس کے بعد عدت کے اندر رجوع کرلینے کی وجہ سے  نکاح باقی رہا ۔اس کے   بعد  دوسری دفعہ   مذکورہ  جملہ کہنے سے دوسری رجعی  طلاق  واقع ہوگئی  ہے،اس کے بعد عدت کے اندر رجوع کرلینے کی وجہ سے  نکاح باقی رہا ۔ا س کے بعد تیسری دفعہ مذکورہ جملہ  کہنے سے تیسری طلاق بھی واقع ہوگئی ۔

ردالمحتار(4/439) میں ہے:"قلت وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها إنه على ثلاثة أقسام أحدها أن يحصل له مبادي الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده وهذا لا إشكال فيه……………… فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته ، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته : فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن إدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل”

فتاوی عالمگیری (2/408) میں ہے:"وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية”

فتاوی عالمگیری (2/411) میں ہے:"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved