• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاقی کہنے سے طلاق کا حکم

استفتاء

میرا نام صاحب جان اور میں پٹھان قوم سے تعلق رکھتا ہوں میں نے اپنی بیوی کو تین سے چار مرتبہ طَلاَقَیْ کا لفظ کہا  ہے۔جس کے معنی طلاق والی ہوتا ہے،اور میں نے یہ جدا کرنے کی نیت سے  نہیں کہا بلکہ یہ لفظ ہمارے پٹھانوں میں گالی کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔اس کا کیا حکم ہے؟

وضاحت مطلوب:(۱)مذکورہ الفاظ کہنے کے بعد کتنا عرصہ گزرگیا؟(۲)رجوع کیا یا نہیں؟

جواب وضاحت:(۱)تقریباً بیس دن گزر گئے۔(۲)رجوع نہیں کیا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی ہے  جس کا حکم یہ ہے کہ اگرشوہر نے  عدت کے اندر اندر رجوع کرلیا تو نکاح برقرار رہے گا اور اگر عدت کے اندر رجوع  نہ کیا تو عدت گزرنے کے بعد نکاح ختم ہوجائے گا اور دوبارہ اکٹھے رہنے کے لئے باہمی رضا مندی سے گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ نکاح کرنا ضروری ہوگا۔

توجیہ:’’طلاقی‘‘کا مطلب ہوتا ہے طلاق یافتہ  یعنی جس عورت کو طلاق دی جا چکی ہو جب شوہر نے اپنی بیوی کو پہلی دفعہ’’طلاقی‘‘(طلاق یافتہ)کہا تو چونکہ اس سے پہلے اس کی بیوی طلاق یافتہ نہیں تھی اس لئے شوہر کے اس لفظ سے طلاق واقع ہوگئی اور چونکہ یہ لفظ طلاق کے لئے صریح ہے اس لئے اس سے ایک رجعی طلاق واقع ہوگئی ۔پھر شوہر نے جب دوسری تیسری مرتبہ یہی لفظ یعنی’’طلاقی‘‘کہا تو چونکہ بیوی کو ایک طلاق ہوچکی تھی جس کی وجہ سے شوہر اپنی بات میں سچا تھا اس لئے اس سے مزید طلاق نہیں ہوئی۔

نوٹ: یاد رہے کہ رجوع کر لینے سے دی ہوئی طلاق کالعدم نہیں ہوگی بلکہ شمار میں رہے گی ۔اس لئے آئندہ شوہر کو صرف دو طلاقوں کا حق باقی رہے گا۔

شامی (449/4)میں ہے:ومنه: أي: من الصريح: يا طالق أو يا مطلقة بالتشديد ،ولو قال أردت الشتم لم يصدق قضاء ودين.خلاصة: ولو كان لها زوج طلقها قبل فقال أردت ذلك الطلاق صدق ديانة باتفاق الروايات،وقضاء في رواية أبي سليمان ،وهو حسن كما في الفتح ،وهو الصحيح كما في الخانية ،ولو لم يكن لها زوج لا يصدق وكذا لو كان لها زوج قد مات .اھ.المحيط البرهانی (3/ 082)ولو قال لها: أنت طالق ثم قال لها: يا مطلقة لا تقع أخرى لأنه صادق في مقالته.ہندیہ (202/2)میں ہے:ولو قال لها أنت طالق ثم قال لها يا مطلقة لا تقع أخرى.ہندیہ(408/2)میں ہے:وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية.امداد الاحکام(418/2)میں ہے:

’’سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے ہندہ کو بعض اوقات خانگی کشیدگی اور جھگڑوں میں بطور تنبیہ اور اظہار نفرت و بیزاری کے طلاقن،مطلقہ،طلاق پانے کے قابل وغیرہم کلمات کہہ دئیے اگرچہ زید نے ایسے کلمات ناراضگی میں منہ سے نکالے لیکن ہندہ کو کبھی اس قسم کا خیال بھی نہیں گزرا۔ وہ معمولی خانگی جھگڑوں پر محمول کرتی رہی اور نہ یہ کلمہ کسی تیسرے شخص کی موجودگی اور مواجہہ میں کہے گئے غرض بجز زید  کسی کے وہم و گمان میں بھی طلاق کا مذکور نہیں۔ اب زید ان کلمات کے منہ سے نکال دینے کی وجہ سے چند روز سے اپنی زوجہ ہندہ کو مشکوک نظر سے دیکھتا ہے اور متردد ہے کہ کہیں ہندہ پر طلاق تو نہیں پڑ گئی ۔ہندہ کی گود میں زید کا شیر خوار بچہ بھی ہے اور فریقین کردنی ناکردنی پر توبہ استغفار کر کے رجوع کرنے پر مائل ہیں نیز زید کی خانہ آبادی بھی ہندہ کے دم سے متصور ہے اب سوال یہ ہے کہ شرعاً ایسی لغویات کی  کیا اصل ہے اور اب رجوع و انابت کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب:قال فى الدر ولو قال لها كونى طالقا ..او يا مطلقة وقع(اي من غيرنية لانه صريح  ۱۲ شامى وفيه ايضاعن التاترخانية عن المحيط:قال انت طالق ثم قال يا مطلقة لا تقع اخرى۱ھ ص۷۱۳ ج۲)صورت مسئولہ میں یہ لفظ تو موجب طلاق نہیں کہ "طلاق پانے کے قابل” البتہ طلاقن اور مطلقہ کہہ کر پکارنے سے زوجہ پر ایک طلاق رجعی واقع ہوچکی ہے اگر اس واقعہ کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا اور عدت پوری نہیں ہوئی تو زبان سے بیوی کو اتنا کہہ دیا جائے کہ میں نے رجعت کر لی اور اگر عدت پوری ہو چکی ہے تو نکاح دوبارہ کر سکتا ہے بشرطیکہ عورت بھی تجدید نکاح پر راضی ہو ورنہ وہ جس سے چاہے نکاح کر سکتی ہے اور آئندہ ایسی لغویات سے احتراز کرنا لازم ہے۔قلت ولا يقع الثانية ولا الثالثة بقوله يا مطلقة لانها اتصفت بها بالاول فيكون حكاية له۔

والله اعلم.‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved