• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’بیوی کو طلاق دے رہا ہوںــــ طلاق، بیوی کو طلاق‘‘ کہنے سے کتنی طلاقیں واقع ہوں گی؟

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کے لیے صوتی پیغام اپنی سالی کو بھیجا جس کے الفاظ یہ ہیں:

’’السلام علیکم!آپ نے تو واپسی کوئی جواب نہیں دیا، اب میری سن لو!**، میں ** کو میں طلاق دے رہا ہوں، طلاق، د**کو طلاق‘‘

صوتی پیغام دار الافتاء کے نمبر پر بھیج بھی  رہا ہوں۔اس سے کتنی طلاقیں واقع ہوگئی ہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں دو رجعی طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جن کا حکم یہ ہے کہ اگر شوہر عدت کے اندر رجوع کرلے مثلا یوں کہہ دے کہ میں نے بیوی سے رجوع کرلیا یا بیوی کو نکاح میں لوٹا لیا تو رجوع ہوجائے گا اور نکاح قائم رہے گا۔ البتہ اگر عدت کے اندر رجوع نہ کیا تو عدت ختم ہونے پر نکاح ختم ہوجائے گا جس کے بعد دوبارہ اکٹھے رہنے کے لیے نیا نکاح کرنا ضروری ہوگا جس میں مہر بھی مقرر ہوگا اور گواہ بھی ہوں گے۔

نوٹ: اگر شوہر نے اس کے علاوہ کبھی طلاق نہیں دی تو رجوع کرنے یا دوبارہ نکاح کرنے کے بعد آئندہ شوہر کے لیے صرف ایک طلاق کا حق باقی ہوگا۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں شوہر نے جو یہ جملہ استعمال کیا کہ ’’** کو میں طلاق دے رہا ہوں‘‘اگرچہ یہ حال کا جملہ ہے اور حال کے جملے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے لیکن جس سیاق میں اس جملے کو شوہر نے ادا کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شوہر اس جملے سے طلاق نہیں دے رہا بلکہ مستقبل قریب میں طلاق دینے کا ارادہ کررہا ہے کہ میں ابھی طلاق کے الفاظ بول کر طلاق دینے لگا ہوں اور بعد میں شوہر نے طلاق کے الفاظ بول بھی دیئے اور عام اردو محاورہ میں بھی مستقبل قریب میں کوئی فعل کرنے کے لیے حال کا جملہ بول دیا جاتا ہے مثلا میں یہ کر رہا ہوں یا میں دیکھ رہا ہوں یعنی ابھی کرتا ہوں، ابھی دیکھتا ہوں اور مستقبل کے صیغے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ نیز شوہر کی طرف سے جو صوتی پیغام آیا ہے اس میں ان جملوں کی ادائیگی کے انداز سے بھی اسی کی تائید ہوتی لہٰذا اس جملہ سے طلاق واقع نہیں ہوئی۔ اس کے بعد شوہر نے جب دو دفعہ صریح طلاق کا لفظ استعمال کیا کہ ’’طلاق،** کو طلاق‘‘ تو اس سے دو رجعی طلاقیں واقع ہوگئیں۔

ہندیہ (1/384) میں ہے:فقال الزوج: طلاق میکنم طلاق میکنم وکرر ثلاثا طلقت ثلاثا بخلاف قوله: كنم (سأطلق) لأنه استقبال فلم يكن تحقيقا بالتشكيك. وفي المحىط لو قال بالعربىة أطلق لا يكون طلاقا إلا إذا غلب استعماله للحال فيكون طلاقا.در مختار (4/443) میں ہے:(صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة)….. (يقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح، ….. (واحدة رجعية…..در مختار (4/509) میں ہے:[فروع] كرر لفظ الطلاق وقع الكلعالمگیریہ (1/470) میں ہے:وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية.

بدائع الصنائع (3/ 283) میں ہے:أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد فأما زوال الملك وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانتدر مختار (5/42) میں ہے:وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالاجماع

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved