• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

خرچہ نہ دینے کی وجہ سے خلع لینے کا حق

استفتاء

میرے شوہر نہ مجھے خرچہ دیتے ہیں، نہ مجھے کپڑے بنوا کر دیتے ہیں، ہر وقت مجھے اپنے گھر والوں کے سامنے ذلیل کرتے رہتے ہیں۔ ان کے گھر والے مجھ سے بدتہذیبی سے پیش آتے ہیں۔ جس جگہ انہوں نے مجھے کمرہ دیا ہوا ہے اس میں میری ساس اور نند نے الماری اور ٹیبل لی ہوئی ہے اور وہ بے دھڑک کمرے میں آتے جاتے ہیں حتیٰ کہ دیور کا بھی آنا جانا ہے۔ وہ مجھے اور میرے ماں باپ کو گالیاں دیتے ہیں، اور جب لڑائی ہوتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ اپنے گھر دفعہ ہوجاؤ، اس کے ماں باپ سے کہو کہ آکر اسے لے جائیں۔ میں ان سے خلع لینا چاہتی ہوں، کیا مجھے حق ہے؟

وضاحت مطلوب ہے:کیا شوہر بالکل خرچہ نہیں دیتا ؟اگر نہیں دیتا تو آپ کے خرچے کا کیا نظم ہے؟

جواب وضاحت:کھانا پینا جو گھر میں ہوتا ہے وہی کھاتے ہیں ،اضافی کچھ نہیں دیتے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

بیوی کے وہ حقوق جو شوہر کے ذمہ واجب ہیں  ان میں سے یہ بھی ہے کہ وہ بیوی کے لیے گھر میں سے ایک کمرہ مختص کردے جس میں کسی اور کا دخل نہ ہو ۔اور اسی طرح گرمی سردی کے مناسب کپڑے مہیا کرنا بھی  شوہر کے ذمہ ہے ۔

مذکورہ صورت میں اگر واقعی آپ کو شوہر کے ساتھ رہنے میں مشکلات کا سامنا  ہے تو اول دونوں خاندانوں کے باحیثیت افراد کوبٹھا کرمعاملے کو حل کرکے حتی الامکان گھر کو   آباد کرنے کی کوشش کریں ۔اگر پھر بھی معاملہ حل نہ ہوتو شوہر کو کچھ دے دلا کر طلاق یاخلع پر راضی کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ شوہر کی رضامندی کے بغیر مذکورہ صورت میں یکطرفہ عدالتی خلع معتبر نہ ہوگا۔

بہشتی زیور(156) میں ہے:” گھر میں سے ایک جگہ عورت کو الگ کردے کہ وہ اپنا مال اسباب حفاظت سے رکھے اور خود اس میں رہے سہے اور اس کی قفل کنجی اپنے پاس رکھے، کسی اور کو  اس میں دخل نہ ہو، فقط عورت ہی کے قبضے میں رہے تو بس حق ادا ہوگیا، عورت کو اس سے زیادہ کا دعوی نہیں ہوسکتا، اور یہ نہیں کہہ سکتی کہ پورا گھر میرے لیے الگ کردو۔فقہ اسلامی(73) میں ہے:

مسئلہ:سا ل میں عورت کپڑے کے دوجوڑے لینے کی حقدار ہے ایک گرمی کا ایک سردی کا۔ بشرطیکہ وہ کپڑا ایسا ہو جو چھ مہینے سے پہلے نہ پھٹتا ہو نہ بوسیدہ ہوتا ہو۔ہنديہ (3/28)میں ہے:الكسوة واجبة عليه بالمعروف بقدر مايصلح لها عادة صيفا وشتاء كذا في التاتارخانيه ناقلا عن الينابيع وإنما نفرض الكسوة في السنة مرتين في كل ستة أشهر مرة كذا في المبسوط ولو فرض لها الكسوة مدة ستة أشهر ليس لها غيرها حتى تمضي المدة فإن تخرقت قبل مضيها إن كانت بحيث لو لبستها لبسا معتادا لم تتخرق لم يجب عليه وإلا وجب وإن بقي الثوب بعد المدة كان بقاؤه لعدم اللبس أو للبس ثوب غيره أوللبسه يوما دون يوم فإن يفرض لها كسوة أخرى وإلا فلا كذا في الجوهرة.ہدایہ (2/ 43) میں ہے: وعلى الزوج أن يسكنها في دار مفردة ليس فيها أحد من أهله إلا أن تختار ذلك لآن السكنى من كفايتها فتجب لها كالنفقة وقد أوجبه الله تعالى مقرونا بالنفقة وإذا أوجب حقا لها ليس له أن يشرك غيرها فيه لأنها تتضرر به فإنها لا تأمن على متاعها ويمنعها ذلك عن المعاشرة مع زوجها ومن الاستمتاع إلا أن تختار لأنها رضيت بانتقاص حقها وإن كان له ولد من غيرها فليس له أن يسكنه معها لما بينا ولو أسكنها في بيت من الدار مفرد وله غلق كفاها لأن المقصود قد حصل.رد المحتار (12/ 106) میں ہے:وفي القهستاني عن شرح الطحاوي:السنة إذا وقع بين الزوجين اختلاف أن يجتمع أهلهما ليصلحوا بينهما ، فإن لم يصطلحا جاز الطلاق والخلع .

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved