• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تم میری طرف سے فارغ ہو ‘‘کہنے کاحکم

استفتاء

میرا نام بشریٰ ہے، میرے والد کا نام محمد زبیر ہے، میری والدہ کا نام فرحت ہے۔ میرے والد نے میری والدہ کو چھوڑ دیا ہے۔ میری والدہ کو چھوڑے ہوئے بارہ سال ہو گئے ہیں ۔ میری والدہ [لوگوں  کے گھروں  میں ] محنت کرتی ہیں ۔ میری والدہ نے تقریباً دو سال پہلے میری شادی کروائی تھی، میرے شوہر کا نام محمد اسحاق ہے۔ جب سے میری شادی ہوئی ہے ایک مہینے بعد ہی میرے شوہر نے مجھے مارنا شروع کر دیا تھا، مجھے بھوکا رکھتے تھے، کمرے میں  بند رکھتے تھے، میرے شوہر کے اپنی بھاوج کے ساتھ غیر شرعی تعلقات ہیں  اور باہر بھی غیر عورتوں  کے ساتھ تعلقات ہیں ، وہ ہر طرح کا نشہ بھی کرتے ہیں ، ان کی بھاوج کے گھر میرے شوہر سے چار بچے بھی ہیں ، ہر بار وہ مجھے مار کر گھر سے نکال دیتے تھے، میری والدہ بہت بار ہاتھ جوڑ کر مجھے وہاں  چھوڑ کے آتی تھیں ۔

اب اس کے بھائی نے میرے شوہر کو کہا کہ یہ مکان خالی کر دو، میرے شوہر نے کہا میں  یہاں  سے نہیں  جاؤں  گا۔ تو ان کے بھائی نے کہا کہ یا بیوی رکھ لو یا ماں  رکھ لو، تو میرے شوہر نے کہا میں  بیوی نہیں  ماں  رکھوں  گا، تو انہوں  نے مجھے بہت مارا اور پانچ دفعہ مجھے یہ کہا کہ ’’تم میری طرف سے فارغ ہو، جہاں  جانا چاہتی ہو جاؤ‘‘۔ پھر میں  نے ان کے بڑے بھائی کو بھی بتایا تو انہوں  نے کہا کہ یہ تمہیں  چھوڑ چکا ہے، تم ایسا کرو میری بیوی نے کراچی سے لاہور شفٹ ہونا ہے تم بھی وہیں  آجانا جہاں  میری دو بیٹیاں  رہ رہی ہیں ، تم بھی رہ لینا۔ مجھے کہا کہ تم اگر اصل ماں  کی بیٹی ہو تو اس انسان کے ساتھ دوبارہ نہ رہنا کیونکہ یہ تمہیں  فارغ کر چکا ہے۔ پھر میں  نے اپنی والدہ کو بلایا اور میں  اپنی والدہ کے ساتھ گھر آگئی۔

اب مجھے آئے ہوئے چھ ماہ پندرہ دن گذر گئے ہیں ، میرا ان کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں  ہے، کچھ سامان لے آئی تھی باقی انہوں  نے توڑ دیا ہے۔ اب ان کے گھر والے کہتے ہیں  کہ طلاق نہیں  ہوئی، اب میرے میاں  بھی کہتے ہیں  کہ میں  نے انہیں  نہیں  چھوڑا، میرے شوہر یہ بھی کہتے ہیں  کہ نہ میں  نے اس کو رکھنا ہے نہ ہی چھوڑنا ہے بس ذلیل کرنا ہے۔

اس سارے مسئلے کو شریعت کی روشنی میں  حل فرمائیں ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں  شوہر کے ان الفاظ سے کہ ’’تم میری طرف سے فارغ ہو، جہاں  جانا چاہتی ہو جاؤ‘‘ ایک بائنہ طلاق واقع ہو گئی ہے جس کی وجہ سے پہلا نکاح ختم ہو گیا ہے۔ عورت اب اپنے سابقہ شوہر کے ساتھ رہنے کی پابند نہیں ، دوسری جگہ نکاح کرنا چاہے تو کر سکتی ہے۔ اور اگر سابقہ شوہر سے صلح کرنا چاہے تو کم از کم دو گواہوں  کی موجودگی میں  نیا نکاح کرنا ضروری ہو گا، جس میں  حق مہر بھی رکھنا ہو گا۔ اور آئندہ کے لیے شوہر کے پاس صرف دو طلاقوں  کا حق باقی رہ جائے گا۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved