• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

سمجھو میں نے تم کو طلاق دے دی‘‘کہنے کاحکم

استفتاء

میں  نے اپنی بیوی  کو غصے میں  یہ الفاظ کہے:

’’سمجھو (یعنی اگرچہ حقیقت نہیں  ہے لیکن تم سمجھو کہ صورت حال اور معاملہ ایسا ہی ہے) میں  نے تم کو طلاق دے دی تم اپنے سارے کام خود کیا کرو‘‘۔ کچھ اور الفاظ بھی کہے تھے جو یاد نہیں  لیکن غالب گمان یہ ہے کہ یہ کہا تھا کہ ’’تم پانی سبزی وغیرہ خود لے آیا کرو‘‘ یا اسی مفہوم کے کچھ اور الفاظ کہے تھے۔ ’’سمجھو میں  نے تمہیں  طلاق دے دی‘‘ (یعنی اگرچہ یہ حقیقت نہیں  ہے ۔۔۔ الخ)۔

نوٹ: تلفظ کیے ہوئے الفاظ سرخ روشنائی سے لکھے ہوئے ہیں ۔ ’’سمجھو میں  نے تمہیں  طلاق دے دی‘‘ دو دفعہ بولا تھا ان الفاظ سے میری نیت طلاق دینے کی نہ تھی۔ بلکہ مراد یہ تھی کہ جس طرح ایک طلاق یافتہ عورت جس کا شوہر نہیں  ہوتا اپنے سارے کام خود کرتی ہے اسی طرح تم بھی اپنے آپ کو طلاق یافتہ سمجھتے ہوئے اپنے سارے کام خود کیا کرو، اور اگر میں  گھر کا کوئی کام نہ کروں  تو مجھ سے جھگڑا نہ کرو۔ اس لیے میں  نے اپنے قول میں  تکلفاً ’’سمجھو‘‘ کے لفظ کا استعمال کیا تھا۔ در اصل میں  نے چند دن پہلے ہی یہ فیصلہ کیا تھا کہ بیوی کو وہ حقائق نہیں  بتایا کروں  گا جو بعد میں  جھگڑے کا باعث بنیں  لیکن جھوٹ بھی نہیں  بولا کروں  گا بلکہ گول مول بات کہا کروں  گا اور اس مقصد کے لیے ’’سمجھو‘‘ کا لفظ استعمال کیا کروں  گا۔ مثلا اگر میرے پاس 50000 روپے ہوں  تو بیوی کو 40000 بتایا کروں  گا لیکن جھوٹ بھی نہیں  بولا کروں  گا بلکہ گول مول اس طرح کہوں  گا کہ ’’تم سمجھو کہ میرے پاس 40000 روپے ہیں ۔‘‘ یعنی اگرچہ حقیقت یہ نہیں  ہے لیکن تم سمجھو کہ معاملہ یا صورت حال ایسی ہی ہے۔

صورت مذکورہ میں  بھی میں  نے دانستہ طور پر ’’سمجھو‘‘ کا لفظ استعمال کیا کہ ’’سمجھو میں  نے تمہیں  طلاق دے دی۔‘‘ یعنی اگرچہ یہ حقیقت نہیں  ہے لیکن تم سمجھو کہ معاملہ ایسا ہی ہے۔ میں  نے عادتاً یہ جملہ دو مرتبہ بولا تھا، میں  ایک استاد ہوں  اور بات دہرانا میری عادت ہے۔

براہ کرم رہنمائی فرمائیں  کہ صورت مذکورہ میں  طلاق واقع ہوئی یا نہیں ۔ اگر ہوئی تو کتنی؟

میں نے اس سلسلے میں  جن عزیز و اقارب سے مشورہ کیا ان کی رائے ہے کہ مجھے دوسری مفتی حضرات سے بھی فتویٰ لینا چاہیے کیونکہ حساس معاملہ ہے۔

بیان حلفی (بیوی صبا منان)

میں  اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر اللہ کی قسم کھا کر یہ اقرار کرتی ہوں  کہ مجھ سے میرے شوہر نے جھگڑا کرتے ہوئے ایسے الفاظ استعمال کیے جن سے میں  سمجھی کہ انہوں  نے مجھے طلاق دے دی ہے۔ وہ الفاظ انہوں  نے دو دفعہ بولے ہیں  مگر مجھے وہ الفاظ ٹھیک طریقے سے یاد نہیں  ہیں ۔ مگر میں  اپنے شوہر کے بیان پر مکمل اعتماد کرتی ہوں ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں  شوہر نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں  یعنی ’’سمجھو میں  نے تمہیں  طلاق دے دی تم اپنے سارے کام خود کیا کرو، سمجھو میں  نے تمہیں  طلاق دے دی‘‘ ان الفاظ سے اگر شوہر کی طلاق کی نیت نہ تھی تو کوئی طلاق واقع نہیں  ہوئی۔ البتہ شوہر کو اپنی بیوی کے سامنے یہ قسم دینی ہو گی کہ ’’اللہ تعالیٰ  کی قسم میری مذکورہ الفاظ سے طلاق کی نیت نہ تھی۔

فتاویٰ شامی (512/4) میں  ہے:

و القول له بیمینه فی عدم النیة و یکفی تحلیفها له فی منزله فان ابیٰ دفعته الیٰ الحاکم فان نکل فرق بینهما۔

فی الشرح: قوله: (بیمینه): فالیمین لازمة له سواء ادعت الطلاق ام لا حقًا لله تعالیٰ۔۔۔۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved