• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مرد و عورت کے درمیان طلاق کی تعداد میں اختلاف

استفتاء

شوہر کا حلفی بیان :

میں جو لکھ رہا ہوں خداکو حاضر ناظر جان کر لکھ رہا ہوں ،ہم میاں بیوی سعودی عرب رہتے ہیں ایک دن ہم مدینہ سے مکہ جارہے تھے کہ میرابیوی سے لڑائی جھگڑا شروع ہو گیا اوراس دوران مجھے غصہ  آگیا اور میں نے کہا کہ’’ طلاق طلاق ،اب تم جائو اپنا انتظام کرلو‘‘ اور پھر گاڑی ہی چلاتا رہا(ماخوذ از تفصیل)تفصیل ساتھ لف ہے ۔

بیوی کا حلفی بیان :

میں جو بھی لکھ رہی ہوںخدا کو حاضر ناظر جان کر لکھ رہی ہوں،7اپریل کی رات ہم مدینہ سے مکہ مکرمہ  آرہے تھے کہ اس دوران ہماری ناچاقی ہو گئی اور میرے میاں کو غصہ  آگیا اور یہ الفاظ بول دیئے کہ ’’طلاق طلاق طلاق جائو انہیں بلائووہ تمہیں بلائیں‘‘ اس کے بعد میں بہت رونے لگی ۔(ماخوذ از تفصیل جو کہ ساتھ لف ہے)خدا را مہر بانی کر کے جلدی ہمارے مسئلے کا حل بتادیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں سائل نے اگر چہ طلاق کے الفاظ غصے کی حالت میں بولے ہیں لیکن یہ غصے کاوہ درجہ نہیں جس میںاسے اپنے  آپ پر کنٹرول نہ ہو،چونکہ بیوی نے اپنے حلفیہ بیان میں تین طلاقوں کا ذکر کیا ہے  ۔لہذا بیوی کے بیان کے مطابق تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں نکاح مکمل طور سے ختم ہو گیا ہے اب نہ صلح ہو سکتی ہے اور نہ ہی رجوع کی گنجائش ہے ۔لا علمی سے طلاق میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔طلاق شریعت کی نظر میں بہت نازک اور حساس معاملہ ہے چنانچہ فرمایا :

ثلاث جدهن جد وهزلهن جد النکاح والطلاق والعتاق.

تین ایسی ہیں جو سنجیدگی سے کی جائیں یا مذاق سے ،واقع ہو جاتی ہیں جن میں سے ایک طلاق بھی ہے ۔

نیز تین طلاقیں اکٹھی دینا اگر چہ شریعت کی نظر میں پسندیدہ کام نہیں ہے اس لیے اگر کوئی دیدے تو گناہ گار ہوتا ہے تاہم تینوں طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں ۔یہ جمہور امت صحابہ ؓوتابعینؒ اور ائمہ اربعہؒ کا متفقہ موقف ہے۔

ابوداؤد شریف(رقم الحدیث:2197) میں ہے :

عن مجاهد قال کنت عند ابن عباس ؓفجاءه رجل فقال انه طلق امرأته ثلاثا فسکت حتی ظننت انه سیردها الیه فقال ینطلق احدکم فیرکب الاحموقة ثم یقول یا ابن عباس یا ابن عباس ان الله قال ومن یتق الله یجعل له مخرجا وانک لم تتق الله فلا اجد لک مخرجا عصیت ربک وبانت منک امرأتک.

ترجمہ:مجاہد ؒ کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے پاس (بیٹھا )تھا کہ ایک شخص ان کے پاس  آیا اور کہا کہ اس نے اپنی بیوی کو (اکٹھی )تین طلاقیں دے دی ہیں تو (کیا کوئی گنجائش ہے ۔اس پر)عبد اللہ بن عباس ؓ اتنی دیر تک خاموش رہے کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ (حضرت کوئی صورت سوچ کر)اسے اس کی بیوی واپس دلا دیں گے ۔پھر انہوں نے فرمایا تم میں سے ایک شروع ہوتا ہے تو حماقت پر سوار ہو جاتا ہے (اور تین طلاقیں دے بیٹھتا ہے )پھر  آکر کہتا ہے اے ابن عباس ؓ!اے ابن عباس ؓ ! (کوئی راہ نکالیے )کی دہائی دینے لگتا ہے اللہ تعا لی کا فرمان ہے :

ومن یتق الله یجعل مخرجا.

ترجمہ :جو کوئی اللہ سے ڈرے تو اللہ اس کے لیے خلاصی کی راہ نکالتے ہیں(اور تم نے اکٹھی تین طلاقیں دے دیں جو کہ گناہ کی بات ہے )تو میں تمہارے لے کوئی راہ نہیں پاتا (اکٹھی تینوں طلاقیں دے کر )تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور اور تمہاری بیوی تم سے جدا ہو گئی۔

عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری 12/233میں ہے  :

ومذهب جماهیر العلماء من التابعین ومن بعد هم منهم الاوزاعی والنخعی والثوری وابوحنیفة واصحابه ومالک واصحابه والشافعی واصحابه واسحاق وابو ثورو ابو عبید و آخرون کثیرون علی ان من طلق امراته ثلاثا وقعن ،ولکنه یأثم وقالوا من خالف فیه فهو شاذ مخالف لاهل السنة وانما تعلق به اهل البدع ومن لا یلتفت الیه لشذوذه عن الجماعة التی لا یجوز علیهم التواطؤ علی تحریف الکتاب والسنة.

ترجمہ :تابعین میں سے جمہور علماء کا مذہب اور ان کے بعد کے لوگوں کا جس میں امام اوزاعی ،نخعی ،ثوری ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب اور امام مالک اور ان کے اصحاب امام شافعی اور ان کے اصحاب اور امام احمد بن حنبل اور ان کے اصحاب اور اسحاق اور ابو ثور اور ابو عبید اور بہت سارے فقہاء ہیں جن کا بھی یہی مذہب ہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں وہ واقع ہو جائیں گی لیکن وہ شخص گناہ گار ہو گا اورفقہاء فرماتے ہیں کہ جو شحص اس مسئلے میں اور کوئی نظریہ رکھے وہ اہل سنت کے مخالف ہے۔یہ نظریہ اہل بدعت اور اہل سنت والجماعت سے کٹے ہوئے لوگوں کا ہے ان کے لیے کتاب و سنت میں تحریف جائز نہیں۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved