• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نافرمان بیوی کے نان ونفقہ کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میرا نام محبوب علی قریشی ہے ۔کچھ ناگزیر حالات کی وجہ سے مجھے پہلی شادی کے 30 سال بعد دوسری شادی کرنی پڑی ۔ پہلی  بیوی سے اللہ تعالی نے چار بچے  عطاء فرمائے ۔ دوسری شادی کی وجہ سے پہلی بیوی نے بچوں   کو ساتھ ملا کر بچوں  کومیرے خلاف اکسایا ۔ یہاں   تک مجھے میرے گھر داخل ہونے پرمزاحمت شروع کر دی ۔ بچوں   کو سمجھانے  کے باوجود تین سال کا عرصہ گزر گیا  جبکہ گھر کا مکمل  خرچہ جو کہ تقریبا ایک لاکھ تھا۔بیٹی کی شادی اور دوسرے بچوں   کی تربیت کی وجہ سے میرا گھر  جانا ضروری ہے ۔ بڑے بیٹے نے ماں   کے اکسانے پر کئی مرتبہ بدتمیزی کی۔لیکن اس کو درگزر کرتے ہوئے ہمیشہ صلح کا پیغام ہی دیا۔اس دفعہ میں   نے خرچہ گھر آنے کے ساتھ مشروط اس لیے کر دیا کہ کسی طرح میں   گھر میں   جانا شروع کروں   اور اپنی ذمہ داری پوری کر سکوں  ۔موجودہ صورتحال میں   بیوی نے خلع لے لیا ہے ۔آپ سے سوال یہ ہے کہ پہلی بیوی کو گھر میں   رکھنے کی میری ذمہ داری کس حدتک ہے؟اور گھر کا خرچہ روکنا کہ بچوں   کو احساس دلانے کے لیے اسلامی  لحاظ سے کس حد تک درست ہے؟

وضاحت مطلوب ہے کہ

بچوں   میں   کتنے لڑکے ہیں   اور کتنی لڑکیاں   ہیں  ؟ اور ان کی عمریں   کتنی ہیں  ؟کیا آپ کے علاوہ بیوی بچوں   کے خرچ کا کوئی اور نظم ہے ؟اگرہے تو وہ کیاہے ؟کیا آپ اپنے گھر میں   زبردستی داخل نہیں   ہو سکتے؟اگر نہیں   ہو سکتے تو اس کی کیا وجوہات ہیں  ؟ ان کو ذرا تفصیل سے لکھیں  ۔

جواب وضاحت:

دو بیٹیاں   دو بیٹے ہیں  ۔ ایک بیٹی شادی شدہ ہے۔ دوسری 26 سال کی ہے ایم بی اے ((M.B.A کیا ہوا ہے ۔ ایک بیٹا 28 سال کا ہے سی اے( (C.A مکمل کر چکا ہے ایک لاکھ کی ملازمت کر رہا ہے ۔ اور چھوٹا بیٹا ایف ایس سی ((F.S.C کر رہا ہے۔بیوی بھی جاب کرتی ہے اور بڑا بیٹا بھی CAکر کے ایک لاکھ کی جاب کرتاہے ۔گھر بحریہ ٹاون میں   ہے اور وہاں   سیکورٹی involve(ملوث)ہو جاتی ہے۔گھر داخل ہونے کی صورت میں   پہلی بیوی کے کہنے پر بچے مزاحمت کرتے ہیں   ۔یہ تین سال سے ہو رہا ہے۔کوشش بہت کی کہ صلح کی طرف معاملہ جائے ۔لیکن دن بدن خرابی کی طرف ہی جا رہا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

بیوی ،شادی شدہ بیٹی اور بیٹوں   کا خرچہ آپ روک سکتے ہیں   کیونکہ مذکورہ صورت میں   ان افراد کا خرچہ آپ کے ذمے نہیں   ہے۔البتہ غیر شادی شدہ بیٹی کا خرچہ آپ کے ذمے ہے اس لیے اس بیٹی کا خرچہ روکنا جائز نہیں  ۔

درمختار (289/5):

لانفقة لاحد عشر۔۔۔وخارجة من بيته بغير حق ۔۔۔وشمل الخروج الحکمي کأن کان المنزل لها فمنعته من الدخول عليهافهي کالخارجة مالم تکن سألته النقلة ۔وايضا فيه وتجب النفقة بأنواعها علي الحر لطفله۔وفي الشامية (لطفله)هو الولد حين يسقط من بطن امه الي ان يحتلم ۔

وايضا في الدرالمختار(348/5)

وکذا تجب لولده الکبير العاجز عن الکسب کأنثي مطلقا وفي الشامية (کأنثي مطلقا اي ولو لم يکن بها زمنة تمنعها عن الکسب فمجرد الانوثة عجز الا اذا کان لها زوج فنفقتها عليه مادامت زوجة۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved