• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’ابھی نہیں چلتی تو میری طرف سے طلاق ہے‘‘مجازات کی صورت ہے نہ کہ تعلیق کی

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مفتیان کرام میں آپ سے ایک مسئلہ پوچھنا چاہتی ہوں میرے شوہر نے مجھے ایک طلاق فون پر دی (لفظ یہ تھے میں آپ کو طلاق دیتا ہوں)پھر تین مہینے سے پہلے گھر آگئے تھے۔ دوسری دفعہ ہم سیر کرنے گئے تھے بارش ہورہی تھی کہنے لگے گھرچلتے ہیں میں نے کہا بارش رک جائے پھر چلیں گے اچانک میرے شوہر نے کہا ابھی نہیں چلتی تو میری طرف سے طلاق ہے اور میں خاموش رہی کوئی جواب نہیں دیا اور خود یہ کہتے ہی چل پڑے اور بولے میں ختم کرکے جارہا ہوں میرا پیچھا نہ کرنا میں جلدی جلدی کیا دیکھتی ہوں میری نظروں سے اوجھل ہو گئے پھر میں رو رو کر راستہ تلاش کرکے بڑی مشکل سے گھر گئی دو دن کے بعد ہماری صلح ہو ئی ۔اس کے بعدہر روز چھوٹی چھوٹی باتوں پر کہتے کہ جو آپ کا طلاق کا ایک حق باقی رہتا ہے میں وہ بھی دے دوں گا میں روز سن کے تنگ ہوئی پھر میں نے بھی آگے سے غصے میں کہا، دے دو گے کیا؟آپ نے تو طلاق دے ہی دی ہے پھر شوہر نے کہا ’’ہاں آپ کے کہنے سے دے دی ہے ‘‘۔

اب اس کا معلوم کرنا ہے کہ کچھ گنجائش باقی ہے یانہیں؟

وضاحت مطلوب ہے:

۱۔ بارش والے واقعہ میں کیا آپ فورا چل پڑی تھیں یا کچھ دیر ٹھہری رہی اگر ٹھہری تو کتنی دیر ٹھہری ؟

۲۔ تیسر ے واقعہ میں شوہر کے الفاظ یہ ہیں ’’ہاں آپ کے کہنے سے دیدی ہے‘‘اس سے مراد کیا تھی ؟آپ کے کہنے کی وجہ سے دیدی ہے یا آپ کے کہنے کے مطابق دیدی ہے ؟یا کچھ اور مراد تھی الغرض جو بھی ہو واضح کریں؟

جواب وضاحت:

۱۔ میں پرس میں چیزیں رکھ رہی تھی اور میرے میاں نے کہا کہ چلو چلیں میں نے کہا کہ بارش رک جائے اور عصر کی نماز پڑھ لیں پھر چلتے ہیں لیکن انہوں نے مذکورہ الفاظ کہے اور چل دیئے ،میں بھی فورا پرس میں چیزیں رکھ کر ان کے پیچھے پیچھے چلی آئی اور راستے میں ان کے ساتھ مل گئی اور انہوں نے سب کے سامنے مجھے دھکا دیا اور چلے گئے اور آنکھوں سے اوجھل ہو گئے۔

۲۔ میرے شوہر اکثر کہتے تھے کہ آپ کا جو ایک طلاق کا حق باقی رہتا ہے وہ بھی دے دوں گا میں نے تنگ آ کر کہہ ہی دیا کہ آپ دے ہی دیں تو انہوں نے کہا کہ آپ کے کہنے سے دید ی ہے ( اس وقت کوئی الفاظ طلاق کے نہیں بولے تھے بس یہی الفاظ بولے تھے جو ذکر کیئے ہیں ۔ کیاان الفاظ سے طلاق ہوگئی؟

لڑکی کا بیان :

بظاہر اس بات سے ان کی مراد طلاق دینے کی تھی باقی کوئی بات پوچھنی ہو تو شوہر کے نمبر پرکال کرکے پوچھ لیں

شوہر سے وضاحت:

۱۔ پہلے واقعہ میں فون پر طلاق سے مراد کال پر طلاق تھی یا مسیج پر؟

۲۔ تیسرے واقعہ میں شوہر کی نیت کیا تھی ؟

جواب وضاحت :

۱۔ کال پر دی تھی۔

۲۔ شوہر سے بات ہوئی وہ حلفیہ یہ کہتا ہے کہ اس تیسرے واقعہ سے میری مراد طلاق کی نہیں تھی بس لڑائی ہو رہی تھی اس کو ختم کرنا مقصد تھا۔

نوٹ: پہلی طلاق دینے کے تین ماہ بعد خاوند گھر آگئے تھے اس دوران تین ماہواریاں گذری تھی اور رجوع ہو گیا تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۔ ایک طلاق فون پر کال کرکے دی جس کے الفاظ یہ تھے ’’میں آپ کو ایک طلاق دیتا ہوں‘‘ان الفاظ سے ایک رجعی طلاق ہوئی پھر تین مہینے سے پہلے گھر آگئے تھے جس سے رجوع ہو گیا تھا۔

۲۔ بارش والے واقعہ میں کہا کہ’’ابھی نہیں چلتی تو میری طرف سے طلاق ہے‘‘ اور بولے ’’میںختم کرکے جارہا ہوںمیرا پیچھا نہ کرنا‘‘بند ہ کے خیال میں یہ تعلیق نہیں بلکہ مجازات ہے جس کا ایک قرینہ ’’میں ختم کرکے جارہا ہوں ‘‘کے الفاظ ہیں اور دوسرا قرینہ ’’جو آپ کا طلاق کا ایک حق باقی رہتا ہے میں وہ بھی دیدوں گا‘‘کے الفاظ ہیں ۔لہذا ان الفاظ سے بھی ایک طلاق ہوئی البتہ رجعی ہوئی یا ’’میں ختم کرکے جارہا ہوں ‘‘کے الفاظ کی وجہ سے بائنہ ہوئی یہ محل نظر ہے۔بظاہر یہ ہے کہ بائنہ ہوئی۔

۲۔ شوہر  اکثر کہتے تھے کہ ’’آپ کا جو ایک طلاق کا حق باقی رہتا ہے وہ بھی دیدوں گا‘‘اس پر بیوی نے تنگ آ کر کہا کہ ’’آپ دے ہی دیں‘‘تو شوہر نے کہا کہ ’’آپ کے کہنے سے دیدی ہے‘‘ ان الفاظ میں طلاق دے دینے کے علاوہ کوئی اور احتمال نہیں لہذا ایک طلاق ان الفاظ سے ہوئی ۔لہذا یہ الفاظ اگر شوہر نے بارش والے واقعے کے بعد عدت یعنی تین ماہواریاں گزرنے سے پہلے کہے ہیں تومذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں جس کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے اور صلح یا رجوع کی گنجائش ختم ہو گئی  اور اگر یہ الفاظ عدت گزرنے کے بعد کہے تو ان سے کوئی طلاق نہیں لہذا دوبارہ نکاح کرکے اکٹھے رہنے کی گنجائش ہے ۔چنانچہ فتاوی شامی (582/4)میں ہے:

والمختار والفتوی انه ان کان فی حالة الغضب فهو علی المجازاة والافعلی الشرط۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved