• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

میسج کے ذریعہ طلاق دینا

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

’’میں  اپنے ہوش میں  فیضان اقبال زویہ خالدکو طلاق دیتا ہوں  ،میں  فیضان اقبال زویہ خالدکو طلاق دیتا ہوں ،میں  فیضان اقبال زویہ خالدکو طلاق دیتا ہوں  ‘‘میں  نے غصہ میں  آکر طلاق دی کیونکہ وہ آٹھ نو مہینے گھر جا کر بیٹھی رہتی تھی اور آتی نہیں  تھی ۔ اس کے ماں  باپ اس کو بھیجتے نہیں  تھے ،تین ماہ کی وہ حاملہ تھی ۔

وضاحت مطلوب ہے :

۱۔ کیا یہ طلاق زبانی دی تھیں  یا لکھ کرموبائل پر میسج کیا تھا؟ اور الفاظ کیا تھے ؟وہ میسج بھیجیں

۲۔ اور وہ میسج کس نیت سے کیا تھا  ؟

جواب وضاحت :

۱۔ طلاق بذریعہ موبائل میسج لکھ کر دی تھی اور الفاظ یہ تھے ’’میں  اپنے ہوش میں  فیضان اقبال کو طلاق دیتا ہوں  ،میں  فیضان اقبال زویہ خالدکو طلاق دیتا ہوں الخ ۔

۲۔ طلاق کی نیت نہیں  تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں  میسج پردی گئی طلاق غیر مرسوم تحریرکی ہے اور غیر مرسوم تحریر کے ذریعے طلاق نیت پر موقوف ہوتی ہے لہذا اگر واقعتا خاوند کی نیت طلاق دینے کی نہیں  تھی تو مذکورہ صورت میں  کوئی طلاق واقع نہیں  ہوئی ۔اور اگر نیت طلاق دینے کی تھی تو تین طلاقیں  واقع ہو گئی ہیں  اور بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے لہذا شوہر کو چاہیے کہ وہ آخرت کو سامنے رکھ کر یہ طے کرے کہ اس کی طلاق کی نیت تھی یا نہیں ؟

مجمع الانهر في شرح ملتقي الابحر(305/9)

اما مستبين مرسوم اي معنون مصدر مثل ان يکتب في اوله من فلان الي فلان او يکتب الي فلان وفي آخره من فلان علي ماجرت به العادة (وهو)اي هذاالمذکور من الکتابة (کالنطق في الغائب والحاضر)علي ماقالوا فيلزم حجة وفي زماننا الختم شرط لکونه معتادا وکذا الکتب علي کاغذ حيث يشترط بناء علي العرف المعروف حتي لو کتب علي الغير يکون غير مرسوم فلهذا قال(واما مستبين غير غرسوم کالکتابة علي الجدار وورق الشجرة وينوي فيه)فليس بحجة الابالنية والبيان لانه بمنزلة الکناية من الصريح فلايصلح حجة (واما غير مستبين کالکتابة علي الهواء والماء)بمنزلةالکلام غير مسموع (ولاعبرة به)فلايثبت به الحکم وان نوي

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved