• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تین مختلف اوقات میں طلاق دینا

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ دو ہزار دو میں میرے تائے کا بیٹا اور دادی ملاقات کے لیے آئے تو میرے میاں نے میرے تائے کے بیٹے کے آنے پر اعتراض کیا کہ یہ کیوں آیا ہے حالانکہ تایا کا بیٹا شادی شدہ ہے ۔دادی جان ساتھ تھی اس بات پر جھگڑا کیا اور یہ الفاظ بولے کہ ’’میں نے تجھے طلاق دی‘‘اس واقعے کے دس پندرہ دن بعد ہم میاں بیوی کی طرح رہنا شروع ہو گئے ۔اور دوہزارتیرہ میں خرچہ کے بارے میں آپس میں لڑائی جھگڑا ہوا اور اس میں یہ الفاظ بول دیئے کہ’’میں تجھے طلاق دیتا ہوں ‘‘پھر میں اپنے میاں کے ساتھ تقوی مسجد میں گئے تو وہاں طلاق کا انکار کردیا کہ میں نے طلاق نہیں دی ۔اور اکثر یہ الفاظ بولتے تھے کہ میں تمہیں فارغ کردوں گا طلاق دے دوں گا ۔اور 7/10/18کو تیسرا واقع پیش آیا گھر کا کرایہ ادا کرنے کے متعلق ،اس میں انہوں نے کہا کہ میں تمہیں چھوڑدوں گا تم کرایہ خود دو گی۔اور یہ الفاظ تین دفعہ کہہ دیئے کہ میں تمہیں طلاق دے رہا ہوں پھر اپنا سامان اٹھا کر چلے گئے ۔اور اپنے سالے اور بہنوئی کو کہا میں ایک طلاق دے رہا ہوں اور بہنوئی سے کہا کہ مفتی صاحب کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے کام ختم ہو گیا ہے۔

نوٹ:          یہ الفاظ جو 7/10/18کو بولے گئے ہیں غصے کی حالت میں تھے لیکن ان کو پتہ تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں ،کوئی مارپیٹ اور خلاف عادت کام نہیں کیا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں خاوند نے مختلف مواقع پر جو الفاظ بولے ہیں ان میں سے تین الفاظ طلاق کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔

۱۔ 2002میں کہا ’’میں نے تجھے طلاق دی‘‘

۲۔ 2013میں کہا ’’میں تجھے طلاق دیتا ہوں ‘‘

۳۔            2018میں کہا ’’میں تمہیں طلاق دے رہا ہوں ‘‘

پہلے دو لفظ تو طلاق کے لیے صاف اور واضح ہیں اس لیے ان سے دو طلاقیں واقع ہوگئیں البتہ تیسرے لفظ میں احتمال ہے کیونکہ یہ جملہ حال کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور مستقبل قریب کے لیے بھی ۔قرینے سے کسی ایک کی تعیین ہوتی ہے ۔یہاں خاوند کا اپنا اقرار اسے انشاء طلاق کے لیے متعین کررہا ہے ۔کیونکہ اس نے بہنوئی سے کہا ہے ’’مفتی صاحب کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے کا م ختم ہو گیا ہے‘‘۔

الغرض : دوطلاقیں پہلے الفاظ سے ہوئیں اور تیسری طلاق بعد کے الفاظ سے ہوئی ۔کل ملاکر تین طلاقیں واقع ہو گئی ہیں ۔نکاح مکمل طور سے ختم ہو گیا ہے ۔اب نہ صلح ہو سکتی ہے اور نہ رجوع کی گنجائش ہے

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved