• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’میں تینوں طلاق دیتاں ،میں طلاق دیتاں ‘‘کہنے کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میری اور میری بیوی کی بنتی نہ تھی اور میں  نے اپنی بیوی کو کہا تھا کہ آپ میکے میں  ہی رہو یہاں  میرے گھر میں  آنے کی ضرورت نہیں  لیکن عید کے موقع پر میری بیوی میرے گھر آگئی اور میری والدہ سے میری بیوی کی لڑائی شروع ہو گئی ۔میں  پیار سے بیوی کو سمجھاتا رہا کہ تم اپنے گھر چلی جائو لیکن وہ نہ سمجھی ۔عید کے موقع پر میرے گھر میں  میرے دوست بھی آئے ہوئے تھے قربانی کے سلسلے میں  کہ اس دوران میری بیوی کی اور میری والدہ کی لڑائی شروع ہو گئی اور میں  نے بار با ر بیوی کو کہا کہ تم اپنے میکے چلی جائو لیکن وہ بھی ضد سے کہنے لگی کہ میں  ادھر ہی رہوں  گی کہیں  نہیں  جائوں  گی۔اس وقت میں  نے یہ الفاظ بول دیئے شدید غصے میں  کی حالت میں  کہ’’ توں  نئی جاناں  کا ر(گھر)؟تو نئی جاناں  کار(گھر)میں  تینوں  (تمہیں )طلاق دیناں  ،میں  طلاق دیناں  ،بس تینوں  اے ہی چائیدا سی ہن توں  جا۔

تنقیح

جب میں  نے الفاظ بولے تھے تو مجھے علم تھا کہ میں  کیا کہہ رہا ہوں  اور کوئی مار پٹائی اور خلاف عادت کام نہیں  ہوا ۔یہ بیان میں  نے اللہ کو حاضر ناظر جان کر لکھا ہے(ملخص سوال )

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں  دو بائنہ طلاقیں  واقع ہوئی ہیں  جن کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہو گیا ہے لہذا اگر میاں  بیوی صلح کرنا چاہتے ہیں  تو نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہو گا جس میں  گواہوں  کا ہونا بھی ضروری ہے۔

توجیہ:         شوہر کے الفاظ ’’میں  تینوں  طلاق دیناں ‘‘میں  تینوں  طلاق دینا ‘‘(میں  تجھے طلاق دیتا ہوں  میں  تھے طلاق دیتا ہوں )سے دو رجعی طلاقیں  ہوئیں  ۔اس کے بعد شوہر کے الفاظ ’’ہن توں  جا ‘‘(اب تو جا )کے الفاظ سے سابقہ دوطلاقیں  بائنہ بن گئیں  کیونکہ ’’ہن توں  جا‘‘(اب تو جا)کے الفاظ اگر چہ کنایات کی قسم اول میں  سے ہیں  جن سے طلاق کا وقوع ہر حال میں  نیت پر موقوف ہوتا ہے مذاکرائہ طلاق یا حالت غضب (غصے کی حالت )سے کچھ فرق نہیں  پڑتا ۔لیکن یہ حکم اس وقت ہے جب مذاکرہ طلاق ،مطالبہ کی صورت میں  ہو کیونکہ اس صورت میں  پہلی قسم کے الفاظ مطالبہ طلاق کے رد کا بھی احتمال رکھتے ہیں  ۔

لیکن اگر مذاکرائہ طلاق ،تقدیم ایقاع کی صورت میں  ہو تو پھر قسم اول کے الفاظ سے طلاق کا وقوع نیت پر موقوف نہیں  رہتا کیونکہ تقدیم ایقاع کی صورت میں  ان الفاظ میں  رد طلاق کا احتمال نہیں  رہتا۔چنانچہ احسن الفتاوی (166/5)میں  ہے :

’’جملہ ثالثہ (تو چلی جا)میں  بدون نیت کے وقوع طلاق پر اگر یہ شبہ ہو کہ اسے فقہاء رحمھم اللہ تعالی نے ان الفاظ میں شمار کیا ہے جو بہر حال نیت پر موقوف ہیں  ان میں  مذاکرائہ طلاق کو نیت کے قائم مقام نہیں  بنایا،تو اس کا جواب یہ ہے کہ حالت مذاکرئہ طلاق یعنی حالت سوال طلاق میں  ’’اذھبی‘‘میں  چونکہ رد وطلاق دونوں  احتمال تھے اس لیے نیت کی شرط لگائی گئی مگر مسئلہ زیر نظر میں  ایک طلاق دینے کے بعد رد کا کوئی احتمال نہیں  ،بلکہ اس میں  تفریع وطلاق جدید کا احتمال ہے لہذا اگر تفریع کی نیت نہ ہو گی تو مستقل طلاق شمار ہو گی ‘‘

احسن الفتاوی کی اس تحقیق سے عدول کی کوئی وجہ نہیں  ۔نیز البائن یلحق الصریح کے اصول کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ایقاع صریح کے بعد بائن صریح کو لاحق ہو یہ بائن کنایات کی کسی بھی قسم میں  سے ہو ۔لحقوق کو تسلیم کر لینے کے بعد یہ بحث رہ جاتی ہے کہ یہ لحوق عدد میں  ہو گا یا صرف وصف میں  ؟تو اس کی تحقیق امداد المفتین(ص:522) میں  ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ صریح طلاق کے بعد(۱) اگر کنائی الفاظ مستقل طلاق کی نیت سے کہے گئے ہوں  تو لحوق عدد میں  بھی ہو گا)(۲) اور اگر سابقہ طلاق کی تفسیر وتوضیح کی نیت سے کہے گئے ہوں  تو صرف وصف میں  لحوق ہو گا(۳)اور خالی الذہن ہو کر کہے گئے ہوں  تو پھر بھی احتیاطا وصف میں  لحوق ہو گا یعنی یہ الفاظ سابقہ طلاق کے عدد میں  تو اضافہ نہ کریں  البتہ سابقہ طلاق کو بائنہ بنادیں گے

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved