• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’میں تینوں طلاق دتی دتی دتی ‘‘کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میرا خاوند گھر سے باہر گیا ہوا تھا میں   نے اسے فون کیا تو مجھے اندازہ ہو ا کہ وہ کسی عورت کے ساتھ ہے اور اسے بازار سے تحفے خرید کر دے رہا ہے جس پر میرا خاوند کے ساتھ فون پر جھگڑا ہوا۔

تو میرے خاوند نے گھر آکر کہا کہ مرد عورت کو تین دفعہ طلاق کہہ دے تو طلاق ہو جاتی ہے ۔پھر اس نے کہا کہ ’’میں   تینوں   طلاق دتی دتی دتی ‘‘اب دس دن بعد خاوند صلح کرنا چاہتا ہے میرا خاوند جھوٹی قسمیں   بھی کھا جاتا ہے اس لیے مجھے اس کا اعتبار نہیں   ہے ۔ لوگوں   کے پوچھنے پر کہتا ہے کہ میں   نے کوئی طلاق نہیں   دی میں   نے ابھی دینی ہے۔میرا یہ حلفیہ بیان ہے اس بیان پر قسم کھاتی ہوں  ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں   اگر شوہر کی نیت تین طلاقوں   کی نہ تھی تو ایک رجعی طلاق واقع ہوئی جس میں   عدت گذرنے سے پہلے پہلے صلح ہو سکتی ہے اور عدت گذرنے کے بعد دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے اور اگر تین طلاقوں   کی نیت تھی تو تین طلاقیں   واقع ہوں   گی اور صلح یا رجوع کی گنجائش نہ ہو گی۔

توجیہ:         اردو اور پنجابی زبان کے محاورات میں   ایسے جملے عموما ایقاع (طلاق دینے کے فعل )کی تاکید کے لیے استعمال ہوتے ہیں   نہ کہ واقع (یعنی خود طلاق )کی تاکید کے لیے ۔البتہ خود طلاق کی تاکید کا ان میں   احتمال ضرور ہے اس لیے اگر کوئی شخص طلاق کی تاکید کی نیت سے یہ جملے استعمال کرے گا تو اس سے قضاء تین طلاقیں   واقع ہو جائیں   گی جیسا خود صریح الفاظ طلاق کے تکرار سے تاکید کی نیت کرنے کی صورت میں   قضاء تین طلاقیں   ہو جاتی ہیں  ۔کفایت المفتی میں   ہے:

’’سوال:زید نے اپنی منکوحہ سے کہا ’’میں   نے تجھ کو طلاق دی دی دی‘‘یعنی لفظ طلاق کو ایک مرتبہ اور لفظ دی کو تین مرتبہ کہ اایسی صورت میں   کون سی طلاق واقع ہوئی؟

جواب:اس صورت میں   اگر وہ خود تین طلاق دینے کی نیت کا اقرار نہ کرے تو ایک طلاق رجعی کا حکم دیا جائے گا۔(الجمعیۃ مورخہ سولہ مارچ 1993)‘‘

فتاوی محمودیہ(ص:457) میں  دارالعلوم دیوبند کا فتوی منقول ہے:

نقل جواب از مولانا اعزاز علی صاحب مفتی مدرسہ دارالعلوم دیوبند

تحریر جواب کے وقت تتمہ ثانیہ امداد الفتاوی بھی میرے سامنے تھا میں   نے جو کچھ عرض کیا ہے وہ سمجھ کر عرض کیا ہے۔لفافہ ہوتا تو مفصل عرض کرتا ظاہر ہے کہ’’ دیدی ‘‘میں   دینے کو بار بار کہہ رہا ہے طلاق کا اعادہ نہیں   کرتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ ایقاع کی تاکید کررہا ہے نہ کہ واقع (طلاق)کی تکرار ،پس اس صورت میں   چند طلاقیں   کیونکر واقع ہو ں  گی؟

رہی یہ بات کہ دیدینا فعل متعدی ہے اس کا مفعول محذوف نکالنا ہے تو فقہ اور اصول فقہ پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں   کہ ان اکلت اور ان اکلت طعاما کے احکام میں   فرق ہے ۔حالانکہ اکلت متعدی اور اس کا مفعول بہ طعاما ہی ہو سکتا ہے اسی طرح انت طالق اور انت طالق طلاقامیں   فرق ہے ۔پس محذوف کو ملحوظ پر قیاس کرنا دشوار ہے ہاں   اگر اصحاب فتوی کی کوئی روایت اس میں   ہو تو بلا کسی تاخیر کے عرض کردوں   گا کہ مجھ سے غلطی ہوئی مگر تتبع کے باوجود مجھ کو اس بارہ میں   میں   روایت نہیں   ملی

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved