• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی کی طرف سے خلع کا مطالبہ ہو تو کیا شوہر کو خلع یا طلاق دے دینی چاہیے؟

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی عورت اپنے شوہر پر جھوٹے الزامات لگائے، خلع کا مطالبہ کرےتو کیا شوہر کامجبور ہو کراسے طلاق دینا درست ہے؟

تفصیل کچھ یوں ہے کہ 28جون2020 کو میری بیوی نے مجھ سے کیلوں کی فرمائش کی تو میں نے کہا کہ آڑو موجود ہیں وہ کھالو، مہینے کے آخری دن ہیں کیلے بعد میں لا دوں گا لیکن بیوی نے اس بات پر ضد ہی پکڑ لی ،میں نے کہا تماشہ نہ بناؤ لیکن وہ باز نہیں آئی اور اپنی ضد پر اڑی رہی، پھر کہنے لگی کہ اگر خرچہ نہیں اٹھا سکتے تو پھر چھوڑ دو، مجھے گھر بھیج دو، میں نے کہا کہ سب کچھ تو  گھر میں ہے،جو میں کھاتا ہوں وہ تم کو کھلاتا ہوں یہ فضول ضد نہ کرو، اس دوران میں نے اپنی ماں کو بلایا اور اس بات سے آگاہ کیا، میری ماں نے میری بیوی کو کہا کہ اب میں کیلے لا کر دیتی ہوں لیکن بعد میں اگر کبھی میرے بیٹے کے پاس روپے پیسے کم ہوں اور وہ اس طرح کی فرمائش پوری نہ کر سکے تو کیا کرو گی؟ تو اس نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو میں گھر چھوڑ کرچلی جاؤں گی لیکن شوہر سے سمجھوتہ نہیں کروں گی۔اس طرح بحث ومباحثہ کرتے ہوئے میں نے اسے اس کے ماں باپ کے گھر بھیج دیا اور وہ کپڑوں کا بیگ اور سامان لے کر چلی گئی۔ماں کے گھر جانے کے بعد اس نے مجھے میسج کیا کہ دوائی کی پرچی ہمدرد کے حکیم کے پاس پہنچا دوں کیونکہ اس کا علاج چل رہا تھا، میں نے کہا کہ جو کچھ چاہیے گھر آ کے لے لو ۔ وہ اپنے والد کے ساتھ گھر آئی اور اپنا سامان اور دوائی کی پرچی لے گئی، میری ماں نے اس کے والد سے کہا کہ اپنی بیٹی کو سمجھاؤ کہ اپنا گھر برباد نہ کرے، اس کے والد نے کہا کہ میری بیٹی مجھ پر بوجھ نہیں، میری ماں نے کہا اگر ایسا ہے تو پھر اپنی بیٹی کو ماہانہ 1،  2 ہزار خرچہ دے دیا کرو، ویسے تو میرا بیٹا آپ کی بیٹی کو 2ہزار ماہانہ خرچہ  نان ونفقہ کے علاوہ الگ سے دیتا ہے یہ اس میں سے بھی کھا سکتی ہے لیکن یہ ان پیسوں کو خرچ ہی نہیں کرتی، تو اس نے کہا وہ میرے اپنے پیسے ہیں میں ان میں سے نہیں کھاؤں گی ،اس طرح کی باتوں کے بعد اس کے باپ نے کہا کہ اس کا گزارہ نہیں ہو سکتا، اس کو چھوڑ دو ، پھر وہ چلے گئے۔ان کے جانے کے کچھ دن بعد اس کے باپ نے میرے  ماموں کو فون کرکے کہا کہ اپنے بھانجے سے کہو کہ جیسے چار بندوں میں نکاح کیا تھا ویسے ہی چار بندوں میں طلاق دے دو، میں نے کہاکہ ماموں جان آپ اس معاملےمیں نہ بولیں ۔اس کے بعد میسج پر ہماری بات ہوئی تو میری بیوی نے کہا کہ یا تواپنی ساری تنخواہ مجھے دو یا جو 2ہزار مجھے دیتے ہو وہ 5 ہزار کر دو اور اس کے بارے میں مجھ سے حساب نہیں لینا اور یہ بھی کہا کہ آپ کی امی نے پیسوں کی ڈیمانڈ کی ہے ( وہ بات جو پہلے بیان ہوئی کہ اپنی بیٹی کو ماہانہ 1 ،  2 ہزار خرچہ دے دیا کرو) اس بات کو ڈیمانڈ کا نام دے کر اس  کے باپ نے شرط رکھی کہ لڑکا اسٹام پیپر پر لکھے کر دے کہ وہ کبھی بیوی کی  وراثت کا  حصہ نہیں مانگے گا اور نہ پیسے مانگے گا ،اس پر میں نے جواب دیا کہ خرچہ 2 ہزار ہی ملے گا اور تم  بھی لکھو  کہ آئندہ کسی بھی بات پر گھرچھوڑ کر نہیں جاؤ گی لیکن میری بیوی لکھنے کے لیے تیار نہیں ہوئی ، میں نے کہا کہ اگر تم نہیں لکھو گی تو میں بھی نہیں لکھوں گا ، ضد نہ کرو اور  واپس میرے گھر آجاؤ لیکن وہ نہیں آئی، میں نے بازودعوی کا کیس کیا پھر بھی وہ نہیں آئی اور خلع کا کیس کر دیا، اب اس صورتحال میں جبکہ میری بیوی نے خلع کا کیس دائر کر دیا ہے اور وہ پیچھے ہتنے کو تیار نہیں ہے تو مجھےکیا کرنا چاہیے؟ خلع کے کاغذات پر دستخط کر دینے چاہئیں یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ آپ کی بیوی نے خلع کا مطالبہ کر دیا ہے، لہذا شرعی طور پربہتر یہ ہے کہ آپ خلع کے کاغذات پر دستخط کر دیں یا طلاق دے دیں،تاہم فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے۔

اعلاء السنن (11/137) میں ہے:

وعند تفریط المرأۃ في حقوق اللّٰه تعالیٰ الواجبة علیها مثل الصلاة ونحوها او أن تکون غیر عفیفة أو خارجة إلی المخالعة والشقاق مندوب إلیه.۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved