• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی کی طرف سے  مطالبہ طلاق کے جواب میں شوہر کا ’’مجھے آمین ہے‘‘ کہنے  کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ  بیوی میکے میں رہ کر خاوند سے ماہانہ خرچ مانگ رہی تھی، شوہر بضد تھا کہ میرے پاس رہو اور گھر واپس آ جاؤ، آٹھ ماہ سے یہ بحث چل رہی تھی، بالآخر بیوی نے خرچ نہ ملنے پر طلاق کا مطالبہ کر دیا، پھر دو ماہ بحث چلتی رہی، بالآخر شوہر نے بیوی سے کہا کہ ’’اگر تم میرے گھر میں میرے ساتھ زندگی نہیں گزارنا چاہتی تو خود ہی فیصلہ کر لو، تمہیں اختیار دیتا ہوں‘‘ بیوی نے پے در پے تین بار کہا کہ ’’میں تمہارے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتی، مجھے طلاق دے دو‘‘ جواب میں شوہر نے تین مرتبہ کہا کہ ’’مجھے آمین ہے‘‘ شوہر کی نیت یہ تھی کہ تمہارے مطالبے پر میں نے تین مرتبہ طلاق دے دی۔کیا مذکورہ صورت میں طلاق واقع ہو گئی ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

توجیہ: بیوی کے مطالبہ طلاق کے جواب میں شوہر کا یہ کہنا کہ ’’مجھے آمین ہے‘‘ ایقاع طلاق نہیں  بلکہ وعدہ ایقاع ہے، اور وعدہ ایقاع سے طلاق واقع نہیں ہوتی چاہے طلاق کی نیت بھی کیوں نہ ہو، لہذا مذکورہ صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

الاشباہ  و النظائر مع شرح الحموی (381/1) میں ہے:

قالت له أنا طالق.؟ فقال نعم، تطلق.ولو قالت: طلقني فقال: نعم. لا، وإن نوى،

قوله: قالت له أنا طالق فقال: نعم إلخ. الفرق بين المسألتين أن معنى نعم بعد قولها أنا طالق نعم أنت طالق ومعناها بعد قولها طلقني نعم أطلقك فيكون وعدا بالطلاق لأنها لتقرير ما قبلها.

کفایت المفتی (6/74) میں ہے:

سوال: ہندہ زید کے نکاح میں دس سال سے ہے، عرصہ ایک ماہ کا ہوا کہ ہندہ اپنے میکے سے پانچ آدمیوں کو اور زید کے قریب کے موضع سے چار آدمیوں کو لے کر زید کے مکان پر آئی اور ان سب لوگوں کے سامنے ہندہ نے یہ کہا کہ زید نامرد ہے مجھ کو طلاق دلوادیجئے لوگوں نے زید سے دریافت کیا کہ تو نامرد ہے؟ زید نے کہا کہ میں نامرد نہیں ہوں بلکہ ہندہ مجھ کو قریب نہیں آنے دیتی تب لوگوں نے کہا کہ اچھا بھائی تو چند روز اور رہ، ہم لوگ تجربہ کرلیں ہندہ نے کہا کہ میں ایک ساعت نہیں رہ سکتی ہوں تب لوگوں نے زید کو ڈانٹا اور کہا کہ جب وہ نہیں رہے گی تو کیوں پریشان ہوتا ہے طلاق دے دے زید خاموش ہوگیا آخر ایک آدمی اٹھا اور کہا کہ تو کہہ کہ ہم نے فلاں کی لڑکی کو طلاق دی زید نے بوجہ دہشت کے مجبورہوکر کہا ہم نے قبول کیا ہمارے خدا نے قبول کیا لفظ طلاق وغیرہ زبان پر کچھ نہیں لایا تب حاضرین نے کہا کہ ایسا طریقہ طلاق دینے کا نہیں ہے بلکہ قصبہ بادشاہ پور قریب ہے بازار کے روز اہل برادری موجود ہوں گے اور عالم لوگ بھی وہاں موجود ہیں وہ لوگ جس طریقہ سے کہیں گے اس طریقہ سے طلاق دی جائے گی آخر کار تاریخ مقرر کی گئی لیکن تاریخ مقررہ پر نہ ہندہ حاضر ہوئی نہ زید اس کے بعد زید دو مرتبہ ہندہ کو لینے گیا مگر ہندہ اور وارثان ہندہ یہی کہتے ہیں کہ ہندہ کو طلاق ہوگئی اور زید کہتا ہے کہ نہ میں نے طلاق دی اور نہ دوں گا لہذا فرمائیے کہ اس صورت میں طلاق ہوئی یا نہیں ؟

جواب: صورت مسئولہ میں اجنبی شخص کے اس کہنے پر کہ تو کہہ کہ فلاں کی بیٹی کو ہم نے طلاق دی زید کا یہ کہنا کہ ہم نے قبول کیا ہمارے خدا نے قبول کیا موجب وقوع طلاق نہیں کیونکہ اجنبی شخص نے زید کی بیوی کو طلاق نہیں دی ہے کہ زید کی اجازت سے وہ صحیح ہوجاتی بلکہ زید کو انشائے طلاق کا حکم کیا ہے زید کا یہ کہنا ہم نے قبول کیا انشائے طلاق نہیں ہے بلکہ وعدہ امتثال امر ہے پھر اگر اس نے طلاق دی ہوتی تو پڑتی اور نہیں دی تو صرف وعدہ خلافی ہوئی وقوع طلاق کی کوئی وجہ نہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved