• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کیا ایک رجعی طلاق کےبعد صلح ہوسکتی ہے؟

استفتاء

ہم میاں بیوی میں غلط فہمی ہوگئی تھی۔ میں ڈاکٹر ہوں، بیوی کی والدہ کو کسی نے میرے خلاف بھڑکایا تھا، کسی نے کہا تھا کہ میرا کریکٹر  خراب ہے وغیرہ۔اس کی ماں نے اسے کچھ زیادہ کرکے بتایا۔ اس نے میرے ساتھ بدتمیزی کی اور میری ماں سے بھی، پھر وہ بیٹی کولے کے چلی گئی، گھر جاکے میرے Patients (مریضوں) کے سامنے میری بے عزتی کی اس وقت میں وہاں نہیں تھا۔اس کے بعد میں نے ایک طلاق کا نوٹس بھیجا جو ساتھ لف ہے۔ کیا اب صلح ہوسکتی ہے؟

طلاقنامہ کی عبارت:

نوٹس طلاقنامہ اول

’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منکہ مسمی کامران ساجدمکمل ہوش وحواس سے اپنی بیوی لائبہ نذیر کو بوجہ نافرمانی اور اپنی والدہ کے کہنے میں آکر میرے ساتھ بدتمیزی کی وجہ سے طلاق اول کا نوٹس بھیج رہا ہوں۔ اب فریقین کا اندر حدود اللہ گزارہ ناممکن ہے لہٰذا ایک نوٹس طلاق بھیج دیا ہے۔ بقیہ دو نوٹس بھی مقررہ وقت پر لائبہ نذیر کو بھیج دیے جائیں گے، لائبہ نذیر بعد از تکمیل نوٹس ثلاثہ طلاق اور عدت کے جہاں چاہے عقدِ  ثانی کرسکتی ہے، مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا۔۔۔۔۔الخ‘‘۔۔۔ مورخہ: 20/10/05

العبد: کامران ساجد      (دستخط)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ایک رجعی طلاق واقع ہوچکی ہے جس کا حکم یہ ہے کہ اگر شوہر عدت کے اندر رجوع کرلے تو رجوع ہوجائے گا اور اگر عدت کے اندر رجوع نہ کیا تو عدت کے بعد اکٹھے رہنے کے لیے گواہوں کی موجودگی میں نئے حق مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا ہوگا۔

نوٹ: عدت کے اندر رجوع کرنے یا عدت کےبعد دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں شوہر کو آئندہ صرف دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں طلاقنامے میں مذکور اس جملے سے کہ ’’  میں مکمل ہوش وحواس سے اپنی بیوی لائبہ نذیر کو ۔۔۔۔۔ طلاق اول کا نوٹس بھیج رہا ہوں‘‘ایک رجعی طلاق ہوئی ہے۔

رد المحتار (443/4) میں ہے:

وفي التتارخانية:…………… ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابه

عالمگیریہ (1/470) میں ہے:

وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية.

بدائع الصنائع (3/ 283) میں ہے:

أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد فأما زوال الملك وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت

در مختار (42/5) میں ہے:

وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالاجماع.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved