• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ایک صریح طلاق دینے کے بعد دو طلاقنامے بھیجنے سے کتنی طلاقیں واقع ہوں گی؟

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے ایک سال پہلے اپنی بیوی کو زبانی طلاق دی تھی جس کے الفاظ یہ تھے کہ "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں” اور اس کے ایک دو دن بعد میں نے رجوع کر لیا تھا، ایک سال بعد دوبارہ لڑائی ہوئی تو میں نے کورٹ کے ذریعے طلاق اول کا نوٹس بھیجا، مجھے یہی معلوم تھا کہ طلاق اول پہلی طلاق ہوگی اور میری نیت بھی یہی تھی کہ میں نے جو زبانی طلاق دی ہے اسی کا نوٹس بھیج رہا ہوں، میں اپنی  اس نیت پر حلف بھی دے سکتا ہوں، جب میری بیوی کو پہلا نوٹس ملا وہ حالت حیض میں تھی، اس کے بعد میں نے دوسری طلاق (طلاق دوئم) کا نوٹس بھیجا، میں اسے صرف دو طلاقیں دینا چاہتا تھا تیسری پر لے کر آنا چاہتا تھا، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میں نے طلاق اول (پہلی طلاق) کے نوٹس میں یہ لائن مینشن (ذکر) نہیں کروائی کہ جو میں نے زبانی طلاق دی ہے اس کا نوٹس بھیج رہا ہوں، کیونکہ وکیل نے نوٹس پہلے سے ٹائپ (تحریر) کیا ہوا تھا رہنمائی فرمائیں کہ اس صورت میں کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں؟

پہلے طلاقنامے کی عبارت:

من مقر مسماۃ مذکوریہ مسماۃ ماہ نور دختر یاسر اورنگزیب کو بقائمی ہوش و حواس خمسہ بغیر کسی دباؤ وجبر کے طلاق اول دیتا ہوں اور طلاق دے کر اپنی زوجیت سے فارغ کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ مورخہ:15-07-2020

دوسرے طلاقنامے کی عبارت:

من مقر دستاویز حالات کی عدم اصلاح کی بنا پر عین سنت نبوی کے مطابق طلاق دوم دیتا ہوں۔

مورخہ: 17-08-2020

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے آپ کی بیوی ا ٓپ پر حرام ہو گئی ہے لہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

توجیہ:

شوہر کے ان الفاظ سے کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘  ایک رجعی طلاق واقع ہوگئی اور عدت کے اندر رجوع کر لینے کی وجہ سے نکاح باقی رہا۔پھر پہلے طلاق نامے کے ان الفاظ سے کہ ’’طلاق اول دیتا ہوں‘‘ دوسری رجعی طلاق واقع ہو گئی،اور ان الفاظ سے کہ ’’طلاق دے کر اپنی زوجیت سے فارغ کرتا ہوں‘‘ سابقہ رجعی طلاق بائنہ بن گئی،کیونکہ صریح کے بعد کنایہ الفاظ کے استعمال سے عدد میں اضافہ نہیں ہوتا، وصف میں اضافہ ہوتا ہے ،اس کے بعد عدت کے اندر دوسرے طلاقنامے کے ان الفاظ سے کہ ’’من مقر دستاویز حالات کی عدم اصلاح کی بنا پر عین سنت نبوی کے مطابق طلاق دوئم دیتا ہوں‘‘ تیسری طلاق واقع ہو گئی کیونکہ مذکورہ الفاظ طلاق کے معنی میں صریح ہیں اور صریح طلاق بائنہ کو لاحق ہو جاتی ہے۔

نیز مذکورہ صورت میں پہلے طلاقنامے سے اگرچہ شوہر کی دوسری طلاق دینے کی نیت نہیں تھی بلکہ زبانی دی ہوئی طلاق کی تحریری اطلاع دینے کی نیت  تھی اس کے باوجود  طلاقنامے سے دوسری طلاق واقع ہو گئی ہے کیونکہ  عدت کے اندررجوع کر لینے کی وجہ سے سابقہ طلاق کا اثر ختم ہو گیا تھا، علاوہ ازیں طلاقنامے کے الفاظ ’’طلاق اول دیتا ہوں‘‘ انشاء طلاق ہیں اخبار نہیں۔

رد المحتار (443/4) میں ہے:

وفي التتارخانية:…………… ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابه

درمختار (4/528) میں ہے:

(الصريح يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدة (و البائن يلحق الصريح).

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.

امداد المفتین (521) میں ہے:

سوال: زید نے اپنی بیوی کو مندرجہ ذیل تحریر بذریعہ رجسٹری ڈاک بھیج دی ’’۔۔۔۔۔۔تم کو بحکم شریعت طلاق دے دی ہے، اور میرا تم سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے، تم اس خط کو سن کر اپنے آپ کو مجھ سے علیحدہ سمجھنا۔۔۔۔‘‘اس سے طلاق ہوگئی ہے یا نہیں؟

الجواب:صورت مذکور میں شوہر کے پہلے الفاظ طلاق صریح کے ہیں، اور دوسرے کنایہ کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الفاظ کنایہ میں اس جگہ باعتبارمراد و نیت متکلم کے عقلا تین احتمال ہیں، تینوں احتمالوں پر حکم شرعی جداگانہ ہے، اول یہ کہ الفاظ کنایہ سے اس نے پہلی طلاق ہی مراد لی ہو، یعنی اس طلاقِ اول کی توضیح و تفسیر اور بیان حکم اس سے مقصود ہو، دوسرے یہ کہ ان الفاظ سے مستقل طلاق کی نیت ہو، تیسرے یہ کہ ان الفاظ سے کچھ کسی چیز کی نیت نہ ہو پہلی صورت میں ان الفاظ سے ایک طلاق بائنہ واقع ہوگی۔  لما فى الخلاصة وفى الفتاوى لو قال لامرأته أنت طالق ثم قال للناس زن من بر من حرام است و عنى به الأول أو لا نية له فقد جعل الرجعي بائنا و إن عنى به الابتداء فهي طالق آخر بائن. (خلاصة الفتاوی صفحه 82 جلد 2)……..اور دوسری صورت میں دو طلاقیں بائنہ واقع ہو جائیں گی جیسا کہ خلاصۃ الفتاوی کی عبارت مذکورہ سے معلوم ہوا اور اس کی توضیح درمختار میں اس طرح ہے "ولو نوى بطالق واحدة و بنحو بائن أخرى فيقع ثنتان بائنتان.

اور تیسری صورت میں بعض عبارات فقہیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ الفاظ کنایہ ہدر و بیکار ہو جائیں گے اور طلاق رجعی اول باقی رہے گی۔۔۔۔۔اور بعض عبارات فقہیہ اس صورت میں بھی طلاق بائنہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے عرف میں اس عبارت کا صاف مطلب یہی سمجھا جاتا ہے کہ متکلم اپنے لفظوں سے کہ ( میرا تم سے کوئی تعلق نہیں) اسی طلاق کو بیان کر رہا ہے جس کو اس سے پہلے صراحۃ ذکر کیا گیا ہے ۔۔۔۔الخ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved