• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر نے مختلف اوقات میں کئی مرتبہ کہا کہ ’’جا میں نے تمہیں طلاق دی‘‘ تو کتنی طلاقیں واقع ہوئیں؟

استفتاء

میری شادی کو تقریبا ایک سال ہوا ہے، میرے خاوند میرے ساتھ بہت جھگڑا کرتے رہتے ہیں اور ہر وقت اپنے منہ سے کہتے رہتے ہیں کہ تمہیں طلاق دوں گا۔ ایک مرتبہ کہا کہ ’’جا میں نے تمہیں طلاق دی‘‘ اور پھر اکثر کہتے رہتے کہ ’’جا میں نے تجھے طلاق دی‘‘۔ تھوڑے دن پہلے 13 ستمبر کو قرآن پاک اٹھا کر کہا ’’میری طرف سے تمہیں طلاق ہے، میں نے نہیں رکھنا‘‘ دو دفعہ کہا تو میں نے شوہر سے کہا کہ مذاق نہ کرو، اس نے کہا ’’آنکھیں کھول کر دیکھو قرآن مجید ہے، میں نے طلاق دی چل نکل، میں نے نہیں رکھنا جا تجھے طلاق ہے‘‘ اور پھر اپنے ماں باپ کے سامنے آکر کہتے ہیں کہ میں نے قرآن اٹھا کر اس کو طلاق دے دی ہے اور اپنے بھائی سے بھی کہا کہ میں نے اس کو نہیں رکھنا طلاق دے دی ہے۔ اس سارے عرصہ تک میں شوہر کے ساتھ ہی رہتی رہی اور ہم میاں بیوی کی طرح اکٹھے ہی رہتے رہے ۔  13ستمبر والے واقعے کے بعد میں گھر آگئی تھی۔

سائلہ: زوجہ:

وضاحت مطلوب ہے کہ:

(۱)۔ سب سے پہلے شوہر نے کب طلاق دی اور کن الفاظ میں دی؟پھر اس کے بعد دوبارہ کتنے کتنے عرصے بعد طلاقیں دیں اور کن الفاظ میں دیں؟

(۲)۔ شوہر کا رابطہ نمبر دیں۔

جوابِ وضاحت: (۱)۔ شادی کے تقریبا چوتھے مہینے کہا کہ ’’جا میں نے تمہیں طلاق دی‘‘ اس کے بعد تقریبا مہینے یا دو مہینے کے بعد پھر اسی طرح کہا، پھر اتنے ہی عرصے میں دوبارہ کہا’’طلاق دی‘‘اس طرح کئی مرتبہ کہاہے۔ اور 13 ستمبر کو تین مرتبہ قرآن پر ہاتھ رکھ کر طلاق دی۔

(۲)۔ شوہر کا رابطہ نمبر یہ ہے:

شوہر سے مختلف دنوں میں کئی دفعہ رابطہ کیا گیا لیکن شوہر نے کال نہیں اٹھائی۔   بقول بیوی شوہر کو اطلاع بھی دی کہ دار الافتاء سے فتویٰ کے بارے میں رابطہ کریں لیکن شوہر نے رابطہ نہیں کیا۔(رابطہ کنندہ: صہیب ظفر)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بیوی کے بیان کےمطابق تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جن کی وجہ سے نکاح ختم ہوچکا ہےاوربیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہے لہٰذا اب نہ رجوع ہوسکتا ہےاور نہ صلح کی کوئی گنجائش ہے۔

توجیہ: شادی کے تقریبا چوتھے مہینے شوہر نے جب پہلی دفعہ کہا کہ ’’جا میں نے تمہیں طلاق دی‘‘تو اس سے ایک رجعی طلاق واقع ہوئی کیونکہ یہ جملہ طلاق کے لیے صریح ہے۔ اس کے بعد میاں بیوی اکٹھے رہتے رہے اس لیے رجوع ہوگیا  اور نکاح باقی رہا۔ پھر تقریبا ایک یا دو مہینے بعد دوبارہ شوہر نے طلاق کا یہی جملہ استعمال کیا تو اس سے دوسری رجعی طلاق واقع ہوگئی، اس کے بعد بھی میاں بیوی اکٹھے رہتے رہے اس لیے رجوع ہوگیا  اور نکاح باقی رہا۔ اس کے بعد تیسری مرتبہ جب شوہر نے طلاق کایہی جملہ استعمال کیا تو اس سے تیسری طلاق بھی واقع ہوگئی۔ اس کے بعد جب شوہر نے طلاق کے الفاظ بولے اس وقت چونکہ نکاح ختم ہوچکا تھا اس لیے وہ الفاظ لغو گئے۔

در مختار مع رد المحتار (4/443) میں ہے:

(صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة)…….. (ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح…….. (واحدة رجعية

فتاویٰ شامیہ (419/4) میں ہے:

قوله: (ومحله المنكوحة) أي ولو معتدة عن طلاق رجعي أو بائن غير ثلاث في حرة وثنتين في أمة……

بدائع الصنائع (295/3) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved