• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر نے بیوی سے تین دفعہ کہلوایا کہ ’’میں آزاد ہوں‘‘ پھر کہا کہ اگر ہمبستری کروں تو دو دن حرام ہو، پھر ایک صریح طلاق دے دی، کتنی طلاقیں واقع ہوئیں؟

استفتاء

1۔ اس رمضان کے شروع میں کسی بات پر جھگڑا ہوا تو میرے شوہر نے مجھ سے زبردستی کہلوایا کہ کہو ’’میں آزاد ہوں‘‘ میں نے کہہ دیا کہ ہاں میں آزاد ہوں۔ یہ بات تین بار کہلوائی پھر کہا کہ تم نے کہہ دیا ہے، اب تم آزاد ہو۔ پھر نمبر بند کروایااور رابطہ کرنے سے بھی منع کردیا، پھر کچھ دن بعد فون پر بات کرتا رہا۔ رمضان کے آخر میں بھی آیا تو ہم  میاں بیوی کی طرح رہنے لگے۔

2۔ پھر کچھ دن بعد عید کے تیسرے دن 28 مئی کو میں حالتِ حیض میں تھی، وہ ازدواجی تعلق قائم کرنا چاہتے تھے، میں نے منع کیا تو کہا کہ نہیں کرتا، اگر ایسا کچھ کروں (جماع) تو تم دو دن مجھ پر حرام ہو، پھر کچھ دیر کے بعد ہی ہر کام کردیا تو کیا میں حرام ہوئی؟ کیا طلاق پڑگئی؟

3۔ اس کے تین یا چار دن بعد دوبارہ جھگڑا ہوا تو مجھے کہا کہ تم یہاں سے چلی جاؤ، جہاں جانا چاہو جاسکتی ہو، جس کے ساتھ رہنا چاہو رہ سکتی ہو، جاؤ۔

4۔ پھر کچھ عرصے بعد کال پر واضح الفاظ میں ایک طلاق دے دی۔ پہلے اپنا نام لیا پھر میرا نام لے کر کہا کہ میں اپنے ہوش وحواس میں ایک طلاق دیتا ہوں۔ دوسرے دن پھر کہا کہ میں آپ کو دوسرا فیصلہ دینا چاہتا ہوں، میں نے فون کال سنی تو کہا کہ میں اپنے ہوش وحواس کےاندر اپنی بیوی کو دوسری ۔۔۔ اس کے بعد لفظ طلاق میں سن نہیں  پائی۔ اب جب گھر والوں کو میں نے بتایا تو وہ دوسری طلاق سے مکر گئے کہ ایک دی ہے، اس کے بعد اب تک ہمارے درمیان ازدواجی تعلق قائم نہیں ہوا مگر فون پر بات ہوئی ہے، عدت کا وقت بھی پورا ہوچکا ہے۔

کیا فون پر بات کرنے سے رجوع ہوگیا؟ نکاح قائم ہے؟ ان سب باتوں کے بعد اس کے ساتھ رہنا جائز ہے یا حرام؟ کتنی طلاقیں ہوگئی ہیں؟

سائلہ: ایک بہن خوشاب سے۔

وضاحت مطلوب ہے کہ :

(۱)۔ فون کال پر طلاق کب دی تھی؟

(۲)۔ شوہر کا رابطہ نمبر ارسال کریں۔

جوابِ وضاحت:

(۱)۔ رمضان کے واقعہ سے تقریبا دو ماہ بعد 29 جون 2020ء کو دی تھی۔

(۲)۔ شوہر کا رابطہ نمبر یہ ہے: ۔ راشد

دار الافتاء سے شوہر سے رابطہ کیا گیا تو اس نے یہ بیان دیا:

1۔ رمضان والا واقعہ اسی طرح ہوا تھا لیکن میری نیت طلاق کی نہیں تھی۔

2۔ جب میں نے بولا تھا کہ تم دو دن کیلیے مجھ پر حرام ہو،تو حرام سے میری مراد ہمبستری تھی۔ اور پھر دو دن نہیں کی تھی۔

3۔ اس میں بھی میری نیت طلاق کی نہیں تھی۔

4۔ فون پر طلاق دی تھی اور ایک مرتبہ دی تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں دو بائنہ طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جن کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہوچکا ہے لہٰذا اگر میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو گواہوں کی موجودگی میں نئے حق مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرکے رہ سکتے ہیں۔

نوٹ: دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں شوہر کو صرف ایک طلاق کا اختیار ہوگا۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں رمضان کے شروع میں ایک جھگڑے کے دوران جب شوہر نے بیوی سے یہ کہلوایا تھا کہ کہو ’’میں آزاد ہوں‘‘ اور بیوی نے یہ کہہ بھی دیا تھا تو اس سے بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہوگئی کیونکہ شوہر کا بیوی سے یہ جملہ کہلوانا تفویضِ طلاق میں کنایہ ہے جس سے دلالتِ حال یعنی غصہ یا مذاکرۂ طلاق کے وقت بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہوجاتی ہے اگرچہ شوہر نے طلاق کی نیت نہ کی ہو۔ اور بار بار کہلوانے سے ایک ہی طلاق واقع ہوگی کیونکہ بائنہ طلاق کے بعد مزید بائنہ طلاق واقع نہیں ہوتی۔

اس کے بعد جب شوہر نے یہ کہا تھا کہ ’’اگر ایسا کچھ کروں (جماع) تو تم دو دن مجھ پر حرام ہو‘‘اس سے شوہر کی مراد ہمبستری کا حرام ہونا تھا جیسا کہ حرام کے ساتھ دو دن کی قید بھی اسی کا قرینہ ہے اس لیے اس جملے سے یمین منعقد ہوگئی اس کے بعد جب شوہر نے ہمبستری کرلی توشرط پائی گئی جس کی وجہ سے دو  دن کے لیے ہمبستری حرام ہوگئی پھر چونکہ شوہر نے دو دن ہمبستری نہیں کی اس لیے شوہر پر کوئی کفارہ نہیں۔

اس کے بعد جب شوہر نے یہ کہا کہ ’’ تم یہاں سے چلی جاؤ، جہاں جانا چاہو جاسکتی ہو، جس کے ساتھ رہنا چاہو رہ سکتی ہو، جاؤ‘‘اس سے لا یلحق البائن البائن کے تحت مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

اس کے بعد جب شوہر نے فون پر صریح طلاق دی تو چونكہ اس وقت تک عورت ابھی عدت میں تھی اس لیے اس سے دوسری طلاق بھی واقع ہوگئی، اور پہلی طلاق چونکہ بائنہ تھی اس لیے دوسری طلاق بھی بائنہ ہی ہوگی ۔  اور اس کے بعد جب شوہر نے دوسری مرتبہ کال کر کےکہا کہ ’’ میں آپ کو دوسرا فیصلہ دینا چاہتا ہوں۔۔۔۔الخ‘‘  اس میں کہیں طلاق کا لفظ نہیں، نہ بیوی نے سنا ہے اور نہ ہی شوہر اقرار کرتا ہے اس لیے اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

المحیط البرہانی (4/399) میں ہے:

وإذا قال لها قولي إني طالق فإن قالت ذلك طلقت، وإن لم تقل لم تطلق

الاختیار لتعلیل المختار (3/139) میں ہے:

ولو قال لامرأته: قولي أنا طالق لم تطلق حتى تقول لأنه أمر بالإنشاء.

در مختار مع رد المحتار (4/517) میں ہے:

(قال لها اختاري أو أمرك بيدك ينوي) تفويض (الطلاق) لأنها كناية فلا يعملان بلا نية

(قوله فلا يعملان بلا نية) أي قضاء وديانة في حالة الرضا، أما في حالة الغضب أو المذاكرة فلا يصدق قضاء في أنه لم ينو الطلاق لأنهما مما تمحض للجواب كما مر ولا يسعها المقام معه إلا بنكاح مستقبل لأنها كالقاضي، أفاده في الفتح والبحر

امدادالاحکام(2/610) میں ہے:

’’اور چوتھا جملہ یہ ہے کہ ’’وہ میری طرف سے آزاد ہے‘‘ اس کنایہ کا حکم در مختار میں صریح موجود ہے کہ غضب و مذاکرہ میں بدون نیت بھی طلاق بائن واقع ہو جاتی ہے۔‘‘

در مختار (4/521) میں ہے:

ونحو اعتدي واستبرئي رحمك، أنت واحدة، أنت حرة، اختاري أمرك بيدك سرحتك، فارقتك لا يحتمل السب والرد.

کفایت المفتی (6/437) میں ہے:

’’(سوال): ایک  شخص نے اپنی منکوحہ سے یوں کہا کہ (جب تک تو تین پارے قرآن شریف کے نہ پڑھ لے اس وقت تک مجھ پر حرام ہے )  اس کے بعد  اس نے قرآن  شریف پڑھنا شروع کردیا اسی درمیان میں کہ وہ قرآن شریف پڑھتی تھی اور ابھی تین پارے پورے نہ ہوئے تھے کہ ایک ماہ کچھ  دن کے بعد اس عورت سے جماع کرلیا، جماع کے بعد اس عورت نے یہ کہا کہ تم نے تو قسم کھائی تھی ایسا کیوں کیا؟  اس کے جواب میں اس نے کہا کہ اب تو  میں نے ایسا کرلیا، آئندہ کے لئے وہی بات  رہی ۔ چنانچہ اس کو  عرصہ سات ماہ کا ہوچکا اور ابھی تک تین پارے  پورے نہیں ہوئے، نہ کسی قسم کا کوئی کفارہ ادا  کیا نہ صحبت کی، پس اس صورت میں وہ عورت اس کے نکاح میں باقی ہے یا نہیں ؟ ۔۔۔۔۔۔الخ

(جواب ۴۴۸)   تین پارے  پڑھنے سے  پہلے جو وطی کرلی ہے اس میں کفارہ یمین واجب ہوا یعنی  دس مسکینوں کو فی مسکین پونے دو سیر گیہوں دینا چاہئے۔ اس  کے بعد پھر اس نے یہ کہا کہ آئندہ کے لئے وہی بات رہی یہ از سر نو ایلاء  ہوا، اس  وقت سے چار ماہ  گزرنے تک تین پارے نہ ہوئے اور درمیان میں وطی واقع نہ ہوئی تو چار ماہ گزرنے پر طلاق بائن ہوگئی، اب   تجدید نکاح  کی ضرورت ہے اور ایلاء ختم ہوگیا تجدید نکاح کرکے وہ بیوی سے مقاربت کرسکتا ہے لیکن تین پارے پورے ہونے سے قبل جو وطئ واقع ہوگی اس میں اسے کفارہ یمین دینا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ۔ محمدکفایت اللہ کان اللہ لہٗ۔   دہلی

رد المحتار (5/80) میں ہے:

تنبيه: قال الخير الرملي في حاشية المنح في كتاب الأيمان: أقول أكثر عوام بلادنا لا يقصدون بقولهم أنت محرمة علي أو حرام علي أو حرمتك علي إلا حرمة الوطء المقابل لحمله ولذلك أكثرهم يضرب مدة لتحريمها ولا يريد قطعا إلا تحريم الجماع إلى هذه المدة ولا شك أنه يمين موجب للإيلاء. تأمل

رد المحتار (419/4) میں ہے:

قوله: (ومحله المنكوحة) أي ولو معتدة عن طلاق رجعي أو بائن غير ثلاث في حرة وثنتين في أمة……

در مختار (4/528) میں ہے:

(الصريح يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدة

البحر الرائق (3/533) میں ہے:

وإذا لحق الصريح البائن كان بائنا لأن البينونة السابقة عليه تمنع الرجعة كما في الخلاصة.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved