• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی کو کہا کہ ’’اپنے والد کے گھر چلی جاؤ‘‘ پھر کہا ’’پانچ سال فارغ ہے‘‘ طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟

استفتاء

میں نے بیوی کو ناراض ہوکر کہا کہ ’’اپنے والد کے گھر چلی جاؤ‘‘ اس نے کہا کہ میری غلطی کیا ہے؟ میں نے فون بند کردیا۔ تھوڑی دیر بعد میرے دل میں وسوسہ آیا کہ 5 سال کا زمین کا ٹھیکہ ہے تو اس کو بھی 5 سال والد کے گھر بٹھاؤں اور ساتھ طلاق کی شرط رکھ دوں تو اسے لگ پتہ جائے۔

تھوڑی دیر بعد پھر میں نے فون کیا تو ہمشیرہ نے اٹھایا تو میں نے پوچھا وہ گئی کہ نہیں؟ تو ہمشیرہ نے کہا کہ وہ چلی گئی لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ اس کا کیا قصور ہے؟ میں نے کہا: اسی کا قصور ہے، اس نے کہا تھا زمین ٹھیکے پر لو۔ میں نے پھر کہا وہ گئی نہیں؟ اسے کہہ دو کہ چلی جائےنہیں تو میں کچھ کردوں گا۔ ہمشیرہ نے کہا کیا کرے گا؟ میں نے کہا: دو لفظ ہی تو ہوتے ہیں اور بہت کچھ ہوجاتا ہے۔ کچھ اور باتیں کرنے کے بعد میں نے کہا: ’’5سال فارغ ہے‘‘ میں فورا چونک گیا کہ کہیں وسوسہ ارادہ بن کے تو نہیں آگیا؟ حالانکہ نیت میں ایسا کچھ نہیں تھا یعنی طلاق کا مطلب نہیں تھا، یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ اگر طلاق کا مطلب ہوتا تو میں چونکتا نہ۔

وضاحت مطلوب ہے کہ: (۱) جب آپ نے ناراض ہوکر بیوی کو یہ کہا کہ ’’اپنے والد کے گھر چلی جاؤ‘‘ تو اس وقت آپ کی نیت کیا تھی؟ (۲)اور جب آپ نے بیوی کے بارے میں کہا کہ ’’5 سال فارغ ہے‘‘تو آپ کی اس وقت کیا حالت تھی؟ غصہ والی یا نارمل؟

جوابِ وضاحت: (۱) ڈرانے کے لئے کہا تھا، طلاق کی نیت نہیں تھی۔ (۲) غصہ والی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ایک طلاقِ بائن واقع ہوچکی ہے جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہوچکا ہے۔ میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو باہمی رضامندی سے گواہوں کی موجودگی میں نئے حق مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرکے رہ سکتے ہیں۔

توجیہ:

مذکورہ صورت میں شوہر نے کنایہ طلاق کے دو جملے کہے ہیں:

(۱) پہلا جملہ شوہر نے بیوی سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’اپنے والد کے گھر چلی جاؤ‘‘۔

(۲) دوسرا جملہ شوہر نے اپنی ہمشیرہ سے فون پر بات کرتے ہوئے بیوی کے بارے میں غصہ کی حالت میں کہا کہ ’’5سال فارغ ہے‘‘۔

پہلا جملہ کنایاتِ طلاق کی پہلی قسم میں سے ہے اور پہلی قسم کے الفاظ میں حالت خواہ غصے کی ہو یا نارمل ہو یا پہلے سے طلاق کی بات چل رہی ہو بہر صورت طلاق تب ہوگی جب شوہر کی طلاق کی نیت ہو، اگر شوہر کی طلاق کی نیت نہ ہو تو شوہر کے حق میں طلاق واقع نہ ہوگی اب اگر شوہر طلاق کی نیت نہ ہونے پر بیوی کے سامنے قسم دیدے تو بیوی کے حق میں بھی طلاق نہ ہوگی ورنہ بیوی اپنے حق میں اس جملے سے ایک بائنہ طلاق سمجھے گی۔

دوسرا جملہ کنایاتِ طلاق کی تیسری قسم میں سے ہے اس قسم کا حکم  یہ ہے کہ اگر شوہر غصہ میں ہو یا پہلے سے طلاق کا ذکر چل رہا ہو تو بغیر نیت بھی بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

پہلے جملے سے چونکہ شوہر نے طلاق کی نیت نہیں کی لہذا اگر شوہر طلاق کی نیت نہ ہونے پر بیوی کے سامنے قسم بھی دے دے تو اس صورت میں پہلے جملے سے تو کوئی طلاق واقع نہ ہوگی البتہ دوسرا جملہ چونکہ شوہر نے غصہ میں کہا ہے لہذا اس سے بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہوگی۔اور اگر شوہر پہلے جملے سے طلاق کی نیت نہ ہونے پر قسم دینے سے انکار کردے تو اس سے بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق ہوجائے گی اور دوسرے جملے سے لا یلحق البائن البائن کے قاعدے کے تحت کوئی نئی طلاق واقع نہ ہوگی اور طلاق جب واقع ہوتی ہے تو کسی متعین مدت تک واقع نہیں ہوتی بلکہ ہمیشہ کے لئے واقع ہوتی ہے اس لیے شوہر کا دوسرے جملے میں 5 سال کی قید لگانا بے فائدہ ہے۔  [1]

اگر یہ اشکال کیا جائے کہ بیوی کو’’تو مجھ پر حرام ہے‘‘ کہنے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے لیکن اگر اس کے ساتھ مدت ذکر ہو مثلا یوں کہا جائے کہ ’’تو مجھ پر 5 سال حرام ہے‘‘ تو   اس جملے سے طلاق واقع نہیں ہوتی، جیسا کہ رد المحتار (5/80) میں ہے:

تنبيه: قال الخير الرملي في حاشية المنح في كتاب الأيمان: أقول أكثر عوام بلادنا لا يقصدون بقولهم أنت محرمة علي أو حرام علي أو حرمتك علي إلا حرمة الوطء المقابل لحمله ولذلك أكثرهم يضرب مدة لتحريمها ولا يريد قطعا إلا تحريم الجماع إلى هذه المدة ولا شك أنه يمين موجب للإيلاء. تأمل

اسی طرح ’’5 سال فارغ ہے‘‘ میں بھی ہونا چاہیے کہ جب فارغ کے لفظ کے ساتھ مدت ذکر کردی تو یہ جملہ طلاق والے معنی سے نکل جانا چاہیے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ لفظ حرام کے ساتھ مدت ذکر کرنے سے حرام کا لفظ بے معنی نہیں ہوتا بلکہ ایک دوسرے حکم کا فائدہ دیتا ہے۔ یعنی اگر چار ماہ یا اس سے زیادہ کی مدت ذکر ہو تو ایلاء اور چار ماہ سے کم مدت ذکر ہوتو یمین کا فائدہ دیتا ہے جبکہ فارغ کے لفظ میں یہ بات نہیں ہےکیونکہ  اگر اس کے ساتھ ذکر کی گئی مدت کا اعتبار کیا جائے تو کوئی حکم ثابت نہیں ہوتا لہٰذا یہ مدت لغو ہوجائے گی۔

کفایت المفتی (34/6) میں ہے:

’’سوال: زید نے اپنی بیوی کو غصہ میں مارپیٹ کر مکان سے باہر کردیا اور کہا ’’تو اپنے باپ کے مکان پر چلی جا‘‘ پھر چند گھنٹے بعد مکان میں داخل کرلیا اور مل بیٹھے۔ اس کے بعد لڑکی کے والد کو خبر ہوئی، کئی روز بعد وہ اس کو اپنے مکان میں لے گئے۔ لڑکی کے والد کو بعض لوگوں نے یہ مشورہ دیا کہ اب لڑکی کو وہاں نہ بھیجو بلکہ اس کا نکاح دوسری جگہ کردو اور کسی مولوی صاحب سے فتویٰ لے لو۔ ۔۔۔۔۔۔الخ

جواب: شوہر اگرچہ اقراری ہے کہ میں نے مار پیٹ کے بعد غصہ کی حالت میں کہہ دیا کہ ’’باپ کے یہاں تو چلی جا‘‘ لیکن طلاق کی نیت سے شوہر انکاری ہے لہذا اس صورت میں طلاق نہیں پڑی۔ اور نکاح شوہر اول کا بدستور سابق قائم ہے تو باوجود قائم ہونے نکاح شوہر سابق کے دوسرا نکاح باطل وناجائز ہوگا۔ شوہر ثانی پر لازم ہے کہ اس عورت کو شوہر سابق کے سپرد کردے ورنہ بذریعہ عدالت کے شوہر اول اپنی زوجہ کو لے سکے گا۔ والحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة رد المحتار جلد۲، ص ۵۰۵‘‘

احسن الفتاویٰ (ج۵، ص۱۸۸) میں ہے:

’’سوال: کوئی شخص بیوی کو کہے ’’تو فارغ ہے‘‘ یہ کونسا کنایہ ہے  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

الجواب باسم ملہم الصواب: بندہ کا خیال بھی یہی ہے کہ عرف میں یہ لفظ صرف جواب ہی کے لیے مستعمل ہے اس لئے عند القرینہ  بلانیت بھی اس سے طلاق بائن واقع ہو جائے گی۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔‘‘

در مختار مع رد المحتار (4/520) میں ہے:

(تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال والقول له بيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله، فإن أبى رفعته للحاكم فإن نكل فرق بينهما. مجتبى.

بدائع الصنائع (292/3) میں ہے:

إذا قال لامرأته أنت طالق يوما أو شهرا أو سنة أنه لا يصح التوقيت ويتأبد الطلاق.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

[1]     مفتی شعیب صاحب کی رائے:

’’5 سال فارغ ہے‘‘ کا لفظ کنایہ طلاق ہے، یہ بات محل نظر ہے، یہ قید لفظی قرینہ ہے غیر طلاق کے لیے ہونے کا کیونکہ فارغ بمعنی طلاق محدود مدت کے لیے نہیں ہوئی، جب مدت کا ذکر کردیا تو معلوم ہوا کہ فراغت بمعنی طلاق مراد نہیں بلکہ فراغت کا کوئی اور مناسب حال مصداق ہوگا مثلا بے یار ومدد گار رہنا، معلقہ بن کر رہنا وغیرہ۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved