• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

دو طلاقیں دینے کے بعد کہا کہ تم خوش ہوجاؤمیں نےتمہیں فارغ کیا، تو کتنی طلاقیں واقع ہوئیں؟

استفتاء

لڑکےکابیان:

میں(کاشف)نےاپنی بیوی کے ساتھ جھگڑا کیا اور جھگڑے کے دوران میں نےاس کوکہا”میں نے طلاق دی”یہ الفاظ دوبارکہےاوراس کےتقریباپانچ منٹ بعدمیں نےان کوکہاکہ میں آپ کوچھوڑکرجارہاہوں،آپ میری طرف سےفارغ ہویہ الفاظ میں نےغصےمیں کہے تھے لیکن مجھے معلوم تھا کہ میں کیا بول رہا ہوں۔

بیوی کا بیان:

میں رابعہ ثنا ءاللہ اپنےپورےہوش وحواس میں حلفاً یہ بیان دیتی ہوں کہ مجھے میرے شوہر نے دو دفعہ” میں نےطلاق دی "بولااورتیسری دفعہ کہاتم خوش ہوجاؤمیں نےتمہیں فارغ کیامیرےشوہرکا نام کاشف بٹ ہے،میرے چھوٹےچھوٹےچار بچے ہیں آپ کی مہربانی ہوگی اس کاکوئی حل بتادیں۔

وضاحت مطلوب ہے: ” میں آپ کوچھوڑکرجارہاہوں”ان الفاظ سےشوہرکی مرادکیاتھی؟

جواب وضاحت:گھروالوں کوچھوڑکروالدہ کےگھرجانامرادتھا۔نیز پہلےبھی کئی مرتبہ ایسا ہوچکاہےکہ لڑائی جھگڑے کیوجہ سے شوہر بیوی بچوں کو چھوڑکروالدہ کے گھر چلاجاتاتھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں دو بائنہ طلاقیں واقع  ہوچکی ہیں جن کی وجہ سےسابقہ نکاح ختم ہوچکاہےلہذااگرمیاں بیوی اکھٹےرہناچاہتےہیں توگواہوں کی موجودگی میں نئےحق مہرکےساتھ دوبارہ نکاح کرکےرہ سکتےہیں۔

نوٹ:دوبارہ نکاح کرنےکی صورت میں آئندہ شوہرکےپاس صرف ایک طلاق کاحق باقی رہےگا۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں جب شوہر نے دو مرتبہ کہا کہ”میں نے طلاق دی”تو اس سے دو رجعی طلاقیں واقع ہوگئیں ۔ پھر  کچھ دیر بعد جب شوہر نے کہا کہ "میں آپ کوچھوڑکرجارہاہوں”ان الفاظ سےنہ طلاق کےوصف میں اضافہ ہوا نہ عدد میں کیونکہ اس سےشوہرکی مرادبیوی بچوں کوکرائےکےگھرمیں چھوڑکروالدہ کےگھرجاناتھا پہلےبھی کئی مرتبہ ایسا ہوچکا ہے کہ لڑائی جھگڑے کیوجہ سے شوہر بیوی بچوں کوچھوڑکروالدہ کے گھرچلاجاتاتھاپھر اس کےبعد جب شوہر نے کہا کہ "تم خوش ہوجاؤمیں نےتمہیں فارغ کیا”تواس سےسابقہ دونوں طلاقیں بائنہ بن گئیں کیونکہ صریح کےبعدکنایہ الفاظ استعمال کرنے سے وصف میں اضافہ ہوتاہےعددمیں نہیں۔

امداد المفتین (521) میں ہے:

سوال: زید نے اپنی بیوی کو مندرجہ ذیل تحریر بذریعہ رجسٹری ڈاک بھیج دی ’’۔۔۔۔۔۔تم کو بحکم شریعت طلاق دے دی ہے، اور میرا تم سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے، تم اس خط کو سن کر اپنے آپ کو مجھ سے علیحدہ سمجھنا۔۔۔۔‘‘اس سے طلاق ہوگئی ہے یا نہیں؟

الجواب:صورت مذکور میں شوہر کے پہلے الفاظ طلاق صریح کے ہیں ، اور دوسرے کنایہ کے ۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔ الفاظ کنایہ میں اس جگہ باعتبارمراد و نیت متکلم کے عقلا تین احتمال ہیں ، تینوں احتمالوں پر حکم شرعی جداگانہ ہے، اول یہ کہ الفاظ کنایہ سے اس نے پہلی طلاق ہی مراد لی ہو، یعنی اس طلاقِ اول کی توضیح و تفسیر اور بیان حکم اس سے مقصود ہو، دوسرے یہ کہ ان الفاظ سے مستقل طلاق کی نیت ہو، تیسرے یہ کہ ان الفاظ سے کچھ کسی چیز کی نیت نہ ہو پہلی صورت میں ان الفاظ سے ایک طلاق بائنہ واقع ہوگی۔  لما فى الخلاصة وفى الفتاوى لو قال لامرأته أنت طالق ثم قال للناس زن من بر من حرام است و عنى به الأول أو لا نية له فقد جعل الرجعي بائنا و إن عنى به الابتداء فهي طالق آخر بائن. (خلاصۃ الفتاوی صفحہ 82 جلد 2)…..اور دوسری صورت میں دو طلاقیں بائنہ واقع ہو جائیں گی جیسا کہ خلاصۃ الفتاوی کی عبارت مذکورہ سے معلوم ہوا اور اس کی توضیح درمختار میں اس طرح ہے "ولو نوى بطالق واحدة و بنحو بائن أخرى فيقع ثنتان بائنتان.اور تیسری صورت میں بعض عبارات فقہیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ الفاظ کنایہ ہدر و بیکار ہو جائیں گے اور طلاق رجعی اول باقی رہے گی۔۔۔۔۔اور بعض عبارات فقہیہ اس صورت میں بھی طلاق بائنہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔ ہمارے عرف میں اس عبارت کاصاف مطلب یہی سمجھاجاتاہےکہ متکلم اپنےلفظوں سےکہ (میرا تم سے کوئی تعلق نہیں) اسی طلاق کوبیان کررہاہےجس کواس سے پہلے صراحۃ ذکر کیا گیا ہے ۔۔۔۔الخ

بحر الرائق (4/ 94)میں ہے:

قوله (وينكح مبانته في العدة وبعدها) أي المبانة بما دون الثلاث لأن المحلية باقية لأن زوالها معلق بالطلقة الثالثة فينعدم قبلها ومنع الغير في العدة لاشتباه النسب ولا اشتباه في الإطلاق له.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved