• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر کا بیوی کو ’’دو، تین، ایک ہزار مرتبہ طلاق دی‘‘ کہنے  کا حکم

استفتاء

میں مسمی ********حنفی مسلک سے تعلق رکھتا ہوں، میں نے اپنی بیوی ****کو اس کی سرکشی کی بنا پر ایک مرتبہ تنبیہا ایک طلاق دی لیکن اس کی سرکشی کم نہیں ہوئی آخر میں نے تنگ آکر اس کو دو طلاقیں اور بھی دے دیں یہ سب کچھ فروری 2020 میں ہو چکا ہے، اب میں شرعا اس کو ساتھ رکھ سکتا ہوں یا نہیں؟ یہ مسئلہ بتا دیں۔

تنقیح:

ایک طلاق اور دو طلاقیں دینے کی تفصیل:

فروری 2020 میں گھر میں جھگڑا ہوا، اس کے دو یا تین دن بعد ہماری گلی سے میری ایک  بہن (باجی ***) گزر رہی تھیں، میں نے ان سے کہا کہ باجی میرا جھگڑا ختم کرا دیں، باجی ک**میری بیوی کو جانتی ہیں، یہ پہلے اسی محلے میں رہتی تھیں جہاں میرا سسرال ہے، یعنی (نمک منڈی*******) جب باجی **گھر میں داخل ہوئیں تو انہوں نے میری اہلیہ (***) سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ اس پر میری بیوی نے کہا کہ یہ یعنی میں ***ساری گلی کو کنجر یعنی گندے لوگ کہتا ہوں، یہ سارا جھوٹ تھا جو میری بیوی کہہ رہی تھی، اس پر میں نے کہا کہ ’’ایک ہوگئی‘‘  نیت یہ تھی کہ میں نے ایک طلاق  دے دی، اس کے دو یا تین دن بعد رات کو پھر جھگڑا ہوا اور دونوں بیٹے اپنی والدہ کے ساتھ کھڑے تھے اور مجھے برا انسان کہہ رہے تھے، میں نے کہا آخر آپ لوگ چاہتے کیا ہیں؟ میری بیوی نے کہا کہ باقی دو طلاقیں بھی دو اور اس پر دونوں بیٹوں اور بیوی نے بہت اصرار بھی کیا، میں نے تنگ آ کر کہا کہ ’’دو تین ایک ہزار مرتبہ طلاق دی‘‘ یہ الفاظ میں نے اپنے والدین اور بیوی کے والدین کا نام لے کر کہے تھے، پھر یہی الفاظ باہر گلی میں کہے، یہ الفاظ میرے بچوں نے بھی سنے اور پوری گلی نے سنے، یہ اطلاع میں نے اپنے سسرال والوں کو بھی واٹس ایپ کے ذریعے بھیجی کہ آ کر اس کو لے جائیں، وہ نہیں آئے، اس سارے عرصے میں ہم دونوں میاں بیوی الگ الگ کمرے میں رہتے رہے۔کیا میں دوبارہ اپنی بیوی کو رکھ سکتا ہوں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر کے ان الفاظ سے کہ ’’دو تین ایک ہزار مرتبہ طلاق دی‘‘ تین طلاقیں واقع ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے، لہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

عالمگیری  (383/1) میں ہے:

رجل طلق امرأته فقيل له في ذلك فقال دادمش هزارديكر تطلق ثلاثا من غير نية.

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved