• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نافرمان بیوی کو طلاق دینےکا حکم

استفتاء

میرا نام محمد احمد ہے، میں حیدرآباد کا رہائشی ہوں اور میری سرکاری نوکری کراچی میں ہے، میری عمر 33 سال ہے۔ جب میں صرف 10 سال کا تھا تو میرے والدین میں علیحدگی ہو گئی تھی، اس وقت ہم تین بھائی تھے اور ایک بہن تھی، جس میں سے ایک بھائی والدہ نے اپنے پاس رکھ لیا اور ہم دو بھائی اور ایک بہن گزشتہ 23 سالوں سے والد کی زیر کفالت ہیں، انہوں نے ہمیں ماں باپ دونوں بن کر پالا ہے اور حد درجہ اچھی تعلیم و تربیت دی جس کے نتیجے میں الحمدللہ آج میں قرآن کا حافظ ہوں اور ایک سرکاری ڈگری کالج میں لیکچرار کے طور پر 17 گریڈ کا افسر ہوں، میری تین سگی پھوپھیاں ہیں جن میں سے ایک پھوپھی کی بیٹی سے میری شادی مؤرخہ 3 جون 2014 کو ہوئی، شادی کے بعد چار دن سکون سے گزرے اور بس پھر میری بہن اور بیوی کے آپس میں لڑائی جھگڑے شروع ہوگئے، ان جھگڑوں کا ہم میاں بیوی کی زندگی پر بہت گہرا اثر پڑا، غلطی ہمیشہ دونوں کی ہوتی ہے اور دونوں آپے سے باہر ہو جاتی ہیں، ان کے لڑائی جھگڑوں کے بعد میری اور میری بیوی کی لڑائی شروع ہو جاتی ہے، آپس میں لڑنے مرنے کے بعد بھی وہ مجھ سے توقع کرتی ہے کہ میں اپنے گھر والوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو جاؤں اور جس طرح وہ ان سے بحث کرتی ہے میں بھی اس کو روکنے کی بجائے اس کا ساتھ دوں، ہماری والدہ کا نہ ہونا ہمارے لیے بہت اذیت ناک ثابت ہوا ہے کیونکہ اگر آج وہ ہمارے ساتھ ہوتیں تو خود بیٹی اور بہو کو عدل سے چلاتیں۔ میں گزشتہ 6 سالوں میں اپنی بیوی کو حد درجے سمجھا چکا ہوں، پیار محبت سے بھی اور سختی سے بھی۔ اس کے علاوہ بارہا ایسا ہوا ہے کہ ہم دونوں کی لڑائی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ دوسرے لوگوں کو بھی بلانا پڑا لوگوں نے بھی کئی بار میری بیوی کو سمجھایا کہ جب شوہر تمہاری تمام ضروریات پوری کرتا ہے تو پھر تم اس کے ساتھ سارا سارا دن یا ساری ساری رات کیوں لڑتی جھگڑتی ہو۔ تم نند بھاوج کی نہیں بنتی تو کم سے کم میاں بیوی تو ہنسی خوشی رہو اور اسی لئے انہوں نے کئی سال پہلے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہم میاں بیوی اوپر الگ رہیں اور اپنا کھانا پکانا الگ کرلیں اور میرے والد، بھائی اور بہن نیچے کے حصے میں اپنا الگ اہتمام کریں، کیونکہ ہمارے گھر کے ہر حصے پر کمرے کے ساتھ الگ کچن، واش روم اور صحن کی سہولت موجود ہے، اپنے بڑوں کا فیصلہ مانتے ہوئے اس پر بھی عمل کیا لیکن میری بیوی اس کے بعد بھی مجھ سے یا میرے گھر والوں سے بدزبانی، بدکلامی اور داداگیری کرنے سے باز نہ آئی، کچھ عرصہ پہلے یہاں تک ہوا کہ اس نے لڑائی جھگڑے میں میرے کپڑے پھاڑ دیے جس کے گواہ موجود ہیں کیونکہ میں نے اسی وقت کچھ بیچ کے لوگوں کو فورا بلا کر اپنی وہی حالت دکھائی اور انہوں نے لڑکی کے ماں باپ کو بلانے اور بات کرنے کی بھی کوشش کی لیکن وہ خود ہمیشہ اسے سپورٹ کرتے آئے ہیں اس لیے نہ وہ آئے اور نہ انہوں نے اپنی بیٹی کی غلطی مانی بلکہ الٹا یہ کہنے لگے کہ اگر کپڑے پھاڑےبھی ہیں تو کوئی وجہ تو ہوگی۔  میں نے غصے میں آکر یہاں تک کہا کہ آپ لوگ اسے آکر یہاں سے لے جائیں میں اب اسے مزید نہیں رکھوں گا، پھر بھی میرے سسر (پھوپھا) نے آنے کے بجائے کہا کہ چھوڑنا ہے تو چھوڑ دے، جب چھوڑ دے گا تو ہم لینے آ جائیں گے اور ساتھ یہ دھمکی بھی دی کہ اگر میں نے ایسا کیا تو واپس جا کر وہ میری پھوپھی کو بھی چھوڑ دیں گے۔ اتنا سب کچھ ہو جانے کے بعد بھی میری بیوی کے ہاتھ پاؤں جوڑنے اور معافی مانگنے کی وجہ سے میں نے اسے طلاق نہیں دی اور اپنے ساتھ رکھا اور اسے سدھرنے کا ایک موقع اور دیا لیکن اب بدتمیزی کی نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ وہ میری بجائے  میرے والد تک سے سینہ تان کر بدتمیزی کرتی ہے انہیں جھوٹا کہتی ہے، مجھے اور میرے گھر والوں کو سرعام مرنے کی بد دعائیں تک دے چکی ہے۔  گھر کے ان تمام حالات کی وجہ سے میں اپنی ذہنی و قلبی ٹینشن کا شکار ہو چکا ہوں کہ بیان سے باہر ہے۔ میری بیوی کا کہنا ہے کہ گھر میں جھگڑے کی اصل وجہ میرے گھر والے ہیں وہ نہیں، اس کا کہنا یہ بھی ہے کہ میرے والد میری بہن کی حمایت کرتے ہیں اور میرا  بھائی بھی ان کا ساتھ دیتا ہے اس لیے میں اسے الگ گھر میں لے جاؤں تاکہ ہم دونوں کے لڑائی جھگڑے ختم ہوجائیں، لیکن میں چاہتا ہوں کہ ہم سب مل کر ایک ہی گھر میں رہیں، میں ہر ہفتے کی دوپہر میں ڈیوٹی سے واپس حیدرآباد جاتا ہوں اور اتوار کی چھٹی گزار کر پیر کی صبح ڈیوٹی پر کراچی  روانہ ہو جاتا ہوں۔  اگر میں اپنی بیوی کو کراچی لے بھی جاتا ہوں تو میرے لئے دوہری پریشانی ہے، پہلی پریشانی یہ کہ میری بیوی میرے کام پر جانے کے بعد گھر پر اکیلی ہو گی اور ایسا کوئی نہیں جسے میں اس کے ساتھ لے جا سکوں اور وہ ہم دونوں کے پاس رہ سکے، نیز وہ اپنے میکےمیں سے بھی کسی کو بلا کر نہیں رکھ سکتی کیونکہ میرا سسرال پنجاب میں ہے، دوسری پریشانی یہ ہے کہ میری بہن گھر میں تنہا ہو گی، یہاں کوئی عورت اس کے پاس موجود نہیں اور نہ ہی حیدرآباد میں کوئی ایسی صورت ہے کہ کوئی میری بہن کے ساتھ رہنے والی ہو۔ اس  دوہری پریشانی کے علاوہ تمام حالات و واقعات کے پیش نظر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میری بیوی بہت ضدی ہے اور ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی جب آپس میں قطع تعلق ہے تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ دور جا کر میرے گھر والوں کی شکل دیکھنے کا سوچے گی بھی۔ میرے اندازے کے مطابق جب میں اسے کہوں گا کہ چلو حیدرآباد چلیں تو وہ انکار کردے گی، اس صورت میں میں اپنے والد اور بہن بھائیوں سے ملنے سے بھی محروم ہو جاؤں گا کیونکہ نہ میں اسے گود میں اٹھا کر زبردستی حیدرآباد لا سکتا ہوں اور نہ ہی اسے پرائے شہر میں اکیلا چھوڑ کر آ سکتا ہوں اور اگر بالفرض وہ میرے زور ڈالنے یا کہنے سننے سے حیدرآباد ملنے آ بھی گئی تو بہت مشکل ہے کہ وہ یہاں کچھ کھائے پیے۔ اگروہ ایسا کرتی ہے تو بھی جنگ ہونی ہے کہ جب کھانا پینا ہی نہیں تھا تو یہاں آئی کیوں۔   میں نے آپ کے سامنے مختصرطور پر اپنا ماضی، حال اور مستقبل سب  رکھ دیے ہیں اب آپ سے درج ذیل سوالات پوچھنا چاہتا ہوں:

1 ۔کیا میں اپنی بیوی سے زبردستی یہ نہیں منوا سکتا کہ وہ میرے اور میرے گھر والوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے ، بدزبانی اور بد کلامی سے باز آ جائے اور میری فرمانبرداری کرے؟

2۔ اگر وہ پیار محبت سے سمجھانے، بستر الگ کرنے، ثالثوں کے فیصلہ کرنے اور میرے مجبور ہو کر ہا تھ اٹھ جانے پر بھی اپنی اس بدزبانی اور بد کلامی سے باز نہ آئے تو کیا مجھے طلاق دے دینی چاہیے؟

3۔ آج جس سٹیج پر میں پہنچ چکا ہوں  ڈر لگتا ہے کہ کہیں کوئی اور غلط قدم نہ اٹھ جائے ، مثلا خودکشی، قتل یا پھر میں یا میری بیوی ڈپریشن میں چلے جائیں یا خدانخواستہ اس ٹینشن میں ہم میں سے کسی کو برین ہیمبرج یاہارٹ اٹیک ہو جائے تو پھر ان سب چیزوں سے بہتر علیحدگی نہیں ہوگی؟

4۔اگر میں اپنی بیوی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جان چھڑانا چا ہوں تو کیا میں اسے ایک ہی وقت میں تین طلاق دے سکتا ہوں کیونکہ اگر میں اسے ایک یا دو طلاقیں دیتا ہوں تو وہ پہلے کی طرح پھر اللہ کی قسم کھا کر یہی کہے گی اور حلفیہ بیان دے گی کہ میں تمہارے ساتھ رہنا چاہتی ہوں، الگ ہونا نہیں چاہتی اور دوسرے لوگ بیچ میں پڑ کر پھر اسے میرے گلے  ڈال دیں گے جو کہ میں اب نہیں چاہتا کیونکہ اب میرا دل ہی اس کی طرف مائل نہیں ہوتا۔ میرے  دل میں اس کے لئے جو عزت اور احساسات تھے وہ سب ختم ہو چکے ہیں بلکہ مر چکے ہیں اور مجھے اس کا ہونا نہ ہونا برابر لگتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی میں اپنے فرائض حد درجےپورے کرنے کی کوشش کرتا ہوں صرف یہ سوچ کر کہ یہ میرے نکاح میں ہے۔ امید ہے آپ جلد سے جلد جواب عنایت فرمائیں گے، پیشگی آپ کا تہہ دل سے مشکور ہوں ۔

محمد احمد

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)زبردستی منوانے کی آپ کے ذہن میں کیا صورت ہے؟ جبکہ آپ نے خود لکھا ہے کہ’’ میں گزشتہ 6 سالوں میں اپنی بیوی کو حد درجے سمجھا چکا ہوں، پیار محبت سے بھی اور سختی سے بھی‘‘

(2)مذکورہ صورت حال میں آپ طلاق دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں، تاہم طلاق دینی چاہئے یا نہیں ؟ اس کا فیصلہ ہم نہیں کر سکتے، اس کا فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے۔

درمختار مع ردالمحتار (416/4)میں ہے:

بل يستحب لو مؤذية أو تاركة صلاة غاية،

(قوله لو مؤذية) أطلقه فشمل المؤذية له أو لغيره بقولها أو بفعلها ط .

(3)  فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے تاہم آپ نے علیحدگی کا فیصلہ کرنا ہے تو شرعا اس میں ممانعت نہیں۔

(4) اکٹھی تین طلاقیں دینا جائز نہیں ، تاہم اگر آپ اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دیں گے تو تینوں طلاقیں واقع ہو جائیں گی لیکن آپ گنہگار ہوں گے۔  اگر آپ اپنی بیوی کو تین طلاقیں دینا چاہتے ہیں تو اس کا سنت طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی بیوی کو تین طہروں (پاکی کے زمانوں) میں ایک ایک کر کے تین طلاقیں دیں یعنی  ہر طہر (پاکی کے زمانے) میں ایک طلاق دیں اور ان پاکی کے زمانوں میں بھی نہ صحبت  کریں اور نہ کسی اور طریقے سے رجوع کریں۔

درمختار  (417/4)میں ہے:

ويحرم لو بدعيا.

درمختار (4/194) میں ہے:

(وأقسامه ثلاثة: حسن، وأحسن، وبدعي يأثم به)…..(والبدعي ثلاث متفرقة أو ثنتان بمرة أو مرتين)في طهر واحد (لا رجعة فيه، أو واحدة في طهر وطئت فيه، أو) واحدة في (حيض موطوءة)

درمختار (4/420) میں ہے:

(وطلقة لغير موطوءة ولو في حيض ولموطوءة تفريق الثلاث في ثلاثة أطهار لا وطء فيها ولا حيض قبلها ولا طلاق فيه فيمن تحيض و) في ثلاثة (أشهر في) حق (غيرها) حسن وسني.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved