• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

   "کلما” کے  لفظ سےطلاق دینےكا حكم

استفتاء

مفتی صاحب ! ایک مسئلہ درپیش ہے ،کہ زید ایک لڑکی سے محبت کرتا تھا ،لیکن زید کو کسی نے خبردی، کہ وہ  لڑکی اچھے کردار کی نہیں ہے ،زید نے  جب یہ سنا تو غصے میں آکر یوں  کہا کہ”یہ  لڑکی مجھ پر حرام ہے،یہ ایسے ہی حرام ہے جیسے مجھ پر میری ماں، بہن حرام ہے ،خدا کی قسم جب بھی میں   اس سے نکاح  کروں ،تو اس کو ہر مرتبہ ہزاروں بلکہ لاکھوں طلاقیں”  یہ الفاظ اس نےباہوش  وحواس کہے تھے ،لیکن بعد میں پتہ چلاکہ یہ خبر جھوٹی تھی۔ اب زیداپنے کئے ہوئے پر پریشان ہے۔ کیا اب  زید اس لڑکی  سے نکاح کرسکتا ہے ؟یا پھر کوئی ایسی صورت ہو کہ زیدکا نکاح اس سے جائز ہوجائے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں زید جب بھی اس عورت سے نکاح کرےگا، تو ہر مرتبہ اس عورت پر تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی،جن کی وجہ سے وہ  عورت زید پر حرام ہوجا ئے گی ۔

توجیہ:مذکورہ صورت میں  زید کے الفاظ  کہ”  جب بھی میں  اس سے نکاح کروں تو اس کو ہر مرتبہ ہزاروں  بلکہ لاکھوں طلاقیں ” کلما کے معنی میں ہے لہذا  ہرمرتبہ نکاح کرنے پر طلاقیں  معلق ہوگئیں ،جس کی وجہ سے زید جب بھی اس لڑکی سے نکاح کرےگا، تو تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔

البتہ زید کےلیے اس عورت  کو  نکاح  میں لانے  کی صورت یہ ہے کہ زید کی اجازت کے بغیر کوئی دوسرا شخص اس کا نکاح کردے ،پھر جب اس کونکاح کی خبر پہنچے ،تو زبان سے اجازت نہ دے ،ورنہ تین طلاقیں  واقع  ہوجائیں  گی، بلکہ  نکاح کی خبر سن کر خاموش رہے۔ البتہ تحریری اجازت دے دے یا کل مہر یا اس کا کچھ حصہ بیوی کی طرف بھیج دے ۔تحریری اجازت یا مہر بھیجنے سےقبل اگر کوئی  اس کو نکاح کی مبارک باد دے تو اس کو یوں  کہے کہ” میں ابھی اس پر غور کررہاہوں” خاموش نہ  رہے،کیونکہ ایسے موقع  پر خاموشی بھی  اجازت کے حکم میں ہے۔

فتاوی عالمگیری ( 2/306) میں ہے:

"ولو دخلت كلمة كلما على نفس التزوج بأن قال كلما تزوجت امرأة فهي طالق أو كلما تزوجتك فأنت طالق يحنث بكل مرة وإن كان بعد زوج آخر هكذا في غاية السرخسی”

فتاوی  عالمگیری(1/419) میں ہے:

"إذا قال كل امرأة أتزوجها فهي طالق فزوجه فضولي وأجاز بالفعل  بأن ساق المهر ونحوه لا تطلق بخلاف ما إذا وكل به لانتقال العبارة إليه "

فتاوی شامی (4/496) میں ہے:

( قال لزوجته غير المدخول بها أنت طالق ) …( ثلاثا ) … ( وقعن ) لما تقرر أنه متى ذكر العدد كان الوقوع به.

کفایت المفتی (6/323) میں ہے:

سوال: ایک غیر شادی شدہ حنفی شخص نے ۔۔۔یہ کہا کہ” اگر وہ یہ کام کرے تو اگر نکاح کرےتو اس کی بیوی پر تین طلاق” ایسی صورت میں اگر وہ شخص امام شافعی کے مذہب پر عمل کرے تو کیا شرعاً اس کو اجازت ہے اگر نہیں ہے تو امام اعظم کے مذہب کی بنا پر نکاح کی صورت کیا ہے ؟نیز اگر بجائے” اگر "کے وہ  لفظ یہ کہے کہ "جب کبھی  وہ نکاح کرے یعنی لفظ (کلما)  تو اس کی بیوی پر تین طلاق” ایسی مجبوری کی صورت  میں کیا  امام شافعی کے مذہب پر عمل کر سکتا ہے؟ اگر کر سکتا ہے تو کیافتوی مفتی شر ط ہے؟ اگر وہ شخص خود بھی عالم ہو  تو کیا اپنے رائے کے مطابق امام شافعی کے قول پر عمل کر سکتا ہے ؟ 

الجواب: "اگر "اور”جب "کبھی٫ دونوں صورتوں میں یمین کے بعد نکاح کرنے سے منکوحہ پر تین طلاق پڑ جائیں گی، اور یمین منحل ہوجاے گی۔۔۔  "کلما” کا مطلب یا تو تکرار لفظ "جب "سے پیدا ہوگا مثلاً یوں کہے "جب جب میں نکاح کروں” یا لفظ بھی لانے سے مثلاً یوں کہے "جب بھی نکاح کروں” اور ان دونوں صورتوں میں مخلصی کی صورت یہ ہے کہ خود نکاح نہ کرے بلکہ کوئی فضولی اس کےامر کی ا ور اجازت کے بغیر نکاح کر دے اور یہ اجازت بالقول نہ دے بلکہ اجازت بالفعل دے مثلاً مہر ادا کر دے یا منکوحہ سے وطی کر لے تو طلاق نہیں پڑے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved