• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مسئلہ تین طلاق

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ہمارا مسئلہ طلاق کی بابت شریعت کے مطابق حل فرما دیں ۔

جناب عالی( 1)پہلی طلاق***** اپنی بیوی کو مورخہ18-12-10 کو بذریعہ ٹی سی ایس بھیج دی جو کہ ٹی سی ایس والوں نے ان کی فیملی میں سے کسی کو وصول کروادی کروادی ۔

(2)دوسری طلاق***** نے اپنی بیوی***** کو بذریعہ ٹی سی ایس مورخہ19-1-10 کو  بھیج دی جو کہ ٹی سی ایس والوں نے ان کو وصول کروا دی ۔

(3)تیسری حتمی***** نے اپنی بیوی*****کو مورخہ 10 -2- 19 کو بذریعہ ٹی سی ایس بھیج دی جو کہ زینب کے بھائی احمد نے وصول کی ۔ان تین طلاقوں کی ٹی سی ایس کی رسیدیں ہمارے پاس ہیں۔

میں ***** بیان کرتا ہوں کہ میں سعودی عرب میں تھا،تو ر*****نے مجھے فون پر بتایا (یہ 2007 کی بات ہے) کہ میں نے اپنی بیوی ***** کو تین بار طلاق رات کے وقت دی اور طلاق کے الفاظ یہ تھے کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ،میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ اس کے بعد اہل حدیثوں سے فتوی لیا انہوں نے کہا کہ ایک طلاق ہوئی ہے۔اور تین بار طلاق صبح کو دی ،اس بات کا میں گواہ ۔

اب گزارش ہے کہ شریعت کے قانون کے مطابق اگر یہ دونوں آپس میں صلح کرنا چاہیں اور میاں بیوی کی حیثیت سے رہنا چاہیں تو شریعت کا حکم کیا ہے؟ ہمیں اس کے مطابق یعنی اس بارے میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حکم ہے اس کے مطابق گائیڈ کر دیں ۔تین طلاقوں کی فوٹو کاپی رضوان صاحب کےسائن(دستخط) کے ساتھ لف ہذا ہے۔ہمارے خاندان کے حساب سے طلاق ہو چکی ہے ،لیکن ***** ماننے کو تیار نہیں ۔ہمیں دین کے مطابق رہنمائی فرمائی جائے اور ہمیں اس کے متعلق اسلام کے عین مطابق فتویٰ دیا جائے،ہم کسی بھی گناہ میں شریک نہیں ہونا چاہتے ،دین کے مطابق بات کی جائے ۔تمام خاندان میں ہمارا مذاق بنا ہوا ہے ،ہم چاہتے ہیں *****کو فتوے پڑھا کراس سے لاتعلقی کی جائے تاکہ کل کو ہم کسی بھی شرمندگی سے بچ جائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ویسے تو جمہور (اکثر)صحابہؓ ،تابعین ،تبع تابعین اور ائمہ اربعہ (امام ابو حنیفہؒ،امام مالکؒ،امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ) کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاقیں بھی تین ہی ہوتی ہیں اور جو حضرات (اہل حدیث)ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک طلاق مانتے ہیں ان کے پاس اس بارے میں قرآن وحدیث کی کوئی صحیح اور صریح (واضح)دلیل نہیں ۔ قرآن پاک میں الطلاق مرتان کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ دومرتبہ جو طلاق دی جائے وہ دو ہی شمار ہو تیں ہیں (چاہے دومرتبہ طلاق ایک مجلس میں دی جائے یا مختلف مجلسوں میں دی جائے)اسی طرح حضرت ابن عباس ؓ کی جس روایت سے یہ حضرات استدلال کرتے ہیں کہ ایک مجلس یا ایک طہر کی تین طلاقیں ایک ہی ہوتیں ہیں ،اس روایت میں ایک مجلس یا ایک طہر کا کوئی لفظ نہیں جبکہ خود حضرت ابن عباس ؓ کا فتوی ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرنے کاہے۔لیکن مذکورہ صورت میں تو آپ کے بھائی نےتین الگ الگ مہینوں میں تین طلاقیں اپنے دستخط سمیت بھیجیں ہیں ۔ لہذا جو حضرات (اہل حدیث)ایک مجلس یا ایک طہر کی تین طلاقوں کو ایک مانتے ہیں ان کے نزدیک بھی تین طلاقیں ہوگئی ہیں جن کی وجہ سے نکاح مکمل طور سے ختم ہوگیا ہے اور بیوی شوہر پر حرام ہوگئی ہے لہذا اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

عن مجاهد قال كنت عندابن عباس رضي الله عنهما فجاءه رجل فقال أنه طلق امرأته ثلاثاً فسكت حتى ظننت أنه سيردها إليه فقال ينطلق أحدكم فيركب الأحموقة ثم يقول ياابن عباس ياابن عباس إن الله قال ومن يتق الله يجعل له مخرجاًوإنك لم تتق الله فلا أجد لك مخرجاً عصيت ربك وبانت منك امرأتك.(ابوداؤد:حدیث نمبر:۲۱۹۷)

ترجمہ:(مشہور تابعی)حضرت مجاہدرحمہ اللہ کہتے ہیں میں  صحابی رسول ﷺ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس (بیٹھا) تھا کہ ان کے پاس ایک شخص آیا اور کہا کہ اس نے اپنی بیوی کو(ایک وقت میں ) تین طلاقیں دے دی ہیں تو (کیا کوئی گنجائش ہے۔ اس پر) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کچھ دیر خاموش رہے یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہواکہ (شاید کوئی صورت سوچ کر) وہ اس کی بیوی اس کو واپس دلا دیں گے( لیکن ) پھر انہوں نے فرمایا تم میں سے ایک شروع ہوتا ہے اور حماقت پر سوار ہوجاتا ہے (اورتین طلاقیں دے بیٹھتاہے اور)پھر(میرے پاس آکر)اے ابن عباس اے ابن عباس (کوئی راہ نکالیے ) کی دہائی دینے لگتاہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتےہیں ومن يتق الله يجعل له مخرجاً(جوکوئی اللہ سے ڈرے تواللہ اس کے لیے خلاصی کی راہ نکالتے ہیں) تم تو اللہ سے ڈرے ہی نہیں(اور تم نے اکٹھی تین طلاقیں دے دیں جو کہ گناہ کی بات ہے۔ تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی ( اس لیے تمہارے لیے خلاصی کی کوئی راہ نہیں) اور تمہاری  بیوی تم سے جدا ہوگئی۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved