• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاق کا مسودہ بغیر دستخط سے طلاق کاحکم اور حق مہر کے متعلق سوالات

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب میں نے اپنی بیٹی کی شادی غیر برادری میں 29 دسمبر 2018 کو کی نکاح حضرت مفتی حسن صاحب نے پڑھایا نکاح نامے میں حق مہر 5000 روپے بمع دو تولہ طلائی زیور رکھا گیا جس میں سے ڈیڑھ تولہ بروقت ادا کردیا گیا جبکہ باقی آدھا تولہ ادھار تھا اور احتیاطا ان شرائط میں یہ بھی لکھ دیا گیا کہ اگر خاوند طلاق دے گا تو دس لاکھ روپے ادا کرے گا ۔نکاح نامے کی نقل ساتھ لف ہے۔ شادی کے تیسرے روز ہی سسرال والوں نے بچی سے کہا کہ ہمارا 10لاکھ معاف کرواؤ لیکن یہ بات اپنے والدین کو نہیں بتانی ۔الغرض حالات خراب ہوئے، بچی ہمارے گھر آ گئی ہم نے ان سے سامان کا مطالبہ کیا ،انہوں نے کہا کہ پہلے طلاق لیں اور بصورتِ طلاق دس لاکھ اور باقیماندہ آدھا تولہ چھوڑ یں ،ہم دس لاکھ سے دستبردار ہونے پر رضامند ہو گئے مگر آدھا تولہ کا مطالبہ بدستور رہا ۔

ایک ثالث نے وہ اپنے ذمہ لے لیا اورجانبین میں طلاق  کی تحریر پر اتفاق ہو گیا کہ اسٹام پیپر پر تحریر بنائی جائے گی، خاوند نے ایک رف تحریرخود اپنے ہاتھ سے لکھی اور ہمیں اس لیے بھیج دی کہ اس میں اگر کوئی ترمیم تبدیلی کرنی ہے تو بتادو اس تحریر کی وصولی سے تقریبا چار گھنٹے بعد فریقین جمع ہوئے اور تحریر کے مندرجات پر اتفاق رائے ہو گیا مگر اس نشت میں ایک مفتی صاحب نے فریقین کو صلح کی ترغیب دی کہ صلح اچھی بات ہے اس پر بھی فریقین آمادہ ہوگئے مگر جب مفتی صاحب نے یہ تحریر دیکھا تو سرپکڑ لیا کہ یہ تو کام خراب ہوچکا ہے ،صلح کا امکان ختم ہوگیا ہے بہرحال باقاعدہ اسٹامپ پیپر کی نوبت نہ آئی  اور ساتھ میں واٹس ایپ پر یہ میسج دیا

’’قاری صاحب ایک تحریر میں نے بھیج دی ہے طلاق ثلاثہ مابین فریقین دوسری تحریر اقرارنامہ مابین فریقین میں صبح بھیج دوں گا‘‘

تحریر درج ذیل ہے:

طلاق ثلاثہ مابین فریقین فریق اول عبید اللہ ولد اللہ بخش، فریق  دوئم سعدیہ ابراہیم ولد محمد ابراہیم۔ فریق اول کی شادی مورخہ 18- 12- 29 فریق دوئم کے ساتھ سرانجام پائی تھی یہ کہ فریقین کے درمیان ذہنی ہم آہنگی نہ ہوسکی جس کی وجہ سے فریقین نے باہمی رضامندی سے فیصلہ کیا ہے کہ طلاق ثلاثہ لے کر آزاد ہو جائیں یہ کہ فریق دوئم تاحال حاملہ نہ ہے اور ابھی تک مورخہ 19-2-9تک حمل نہ ہے ۔ یہ کہ فریق دوئم نکاح نامے پر تحریر شدہ شرائط شق نمبر 15 دو تولہ طلائی میں سے بوقت رخصتی سے پہلے ڈیڑھ تولہ طلائی وصول کر چکی ہوں اور آدھا تولہ ایک سال تک وصول کر لونگی، فریق دوئم فریق اول کے خلاف دو تولہ طلائی کی بابت کوئی دعوی وغیرہ نہ کرو ں گی، یہ کہ فریق دوئم شق نمبر 17 بمطابق اگر دولہا دوسری شادی کرے گا تو دس لاکھ رقم ادا کرے گا شق نمبر 19 اگر دولہا طلاق دے گا تو دس لاکھ رقم ادا کرے گا فریق اول کو روبرو گواہان معاف کرتی ہوں ،یہ کے فریقین کے درمیان مذکورہ بالا شرائط کے مطابق لین دین تمام کلیئر ہو گیا ہے، حق مہر مبلغ 5000 روپے وصول کر لیا تھا اور فریق دوئم نے اپنا تمام جہیز سامان وصول پا لیا ہے ،اب فریقین کا آپس میں لین دین دام، دام وصول پاکر تحریر لکھدی ہے ،فریق اول فریق دوئم کو طلاق ثلاثہ دیتا ہوں ،طلاق، طلاق ،طلاق دیتا ہوں فریق دوئم طلاق ثلاثہ لیتی ہوں،مدعا عدت پوری ہونے کے بعد جہاں چاہے عقدے ثانی کر سکتی ہوں مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا ،اگر کوئی فریق دوسرے فریق کے خلاف کوئی دعوی درخواست گزار دے گا وہ باطل تصور ہوگی ،فریقین کے گواہان کے دستخط و نشان انگوٹھا ثبت کر دیے ہیں تاکہ سند رہے بوقت ضرورت کام آوے)

اس کے بعد ان حضرات نے کوئی تحریر نہ بھیجی بلکہ اپنا موقف تبدیل کر لیا اور کہا کہ اب ہم آپ کو طلاق عدالت کے ذریعے دیں گے اور اپنا ادا شدہ حق مہر یعنی ڈیڑھ تولہ بھی واپس لیں گے تب جا کر آپ کو بچی کا سامان واپس ملے گا۔ آنجناب سے سوال یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں ۔

  • نکاح کی پوزیشن کیا ہے ؟کیا منسلکہ تحریر اور خاوند کے الفاظ سے طلاق واقع ہو گئی ہے یا نہیں؟ اگر ہوئی ہے تو کتنی؟
  • حق مہر واپس لینے کا اختیار ان کو حاصل ہے یا نہیں ؟نیز باقی ماندہ آدھا تولہ کیا بچی کا حق مہر بنتا ہے یا نہیں؟
  • حق مہر واپس نہ ملنے تک بچی کا سامان روکنا شرعا درست ہے یا نہیں ؟(محمد ابراہیم )

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر چہ منسلک تحریر خاوند نے لکھی ہے اور تحریر طلاق ثلاثہ کے مضمون پر مشتمل ہے مگر یہ تحریر بطور انشائے طلاق کے نہیں لکھی گئی نہ تو تحریر پر دستخط ہیں جو کسی تحریر کو اپنی طرف منسوب کرنے کی مضبوط علامت ہوتے ہیں اور نہ ہی یہ تحریر حتمی تھی بلکہ اس کی حیثیت ایک ابتدائی مسودے کی ہے جس پر طرفین سے اتفاق رائے ہونے کے بعد اسے حتمی شکل دی جانی تھی، تحریر جب تک تسوید کے مراحل میں ہو حتمی نہیں ہوتی، اس لیے مذکورہ صورت میں اس تحریر سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ،لہذانکاح بدستور قائم ہے۔

2- چونکہ رخصتی ہوچکی ہے اس لیے مکمل حق  مہر عورت کا حق بن چکا ہے، طلاق ہو یا نہ ہو، یہ عورت کا حق ہے جس کا مطالبہ کر سکتی ہے ۔

سسرال کی طرف سے حق مہر کی واپسی کا مطالبہ درست نہیں

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved