• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مسلک اہل حدیث کی وجہ سے تین طلاق کے حکم بدلنا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء دین  متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج سے تقریباًسات ماہ قبل ایک لڑکے نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں اور اس کے بعد کذب بیانی کرکے اپنے آپ کو اہل حدیث مسلک سے ظاہر کیا اور پلندری تحصیل  کے مفتی سے فتوی لے کر آگیا جس میں مفتی صاحب نے لکھا کہ اہل حدیث مسلک سے ہونے کی وجہ سے رجوع کی گنجائش موجود ہے جبکہ معاشرے کے اکثر لوگوں کو پتہ ہے کہ وہ اہل حدیث مسلک سے نہیں ہے اور جان بوجھ کربول رہا ہے ۔(طلاقیں ایک ہی مجلس میں دی گئی ہیں )طلاق کے بعد لڑکی والدین کے گھر چلی گئی تھی لڑکی کو اسی خاوند سے ایک بچہ بھی ہے جس کی عمر دو سال ہے ۔لڑکی مسلک کےلحاظ سے سنی حنفی بریلوی خاندان سے تعلق رکھتی ہے عرصہ سات ماہ بعد لڑکا لڑکی کو ورغلاکر والدین سے چھپاکر اپنے ساتھ واپس لے گیا اور راولپنڈی میں جاکر تجدید نکاح کیا اور کوئی حلالہ وغیرہ بھی نہیں ہوا۔30ستمبر  2020ءکو طلاق ہوئی 18پریل 2021 ءکو دوبارہ چھپ کر نکاح کیا گیا۔اس مسئلہ میں ہماری درج امورکے حوالے سے رہنمائی فرمائی جائے۔

(1)کیا میاں بیوی دوبارہ اکٹھے رہ سکتے ہیں جبکہ تین طلاقیں ہو چکی ہیں ؟

(2) لڑکی واپس والدین کے ساتھ نہیں آنا چاہتی والدین اس کولانے میں ناکام ہوں تو کیاوالدین گناہ گار ہوں گے؟والدین کو کیا کرناچاہیے ؟

(3) معاشرے کے لوگوں کا کیا کردار ہونا چاہیے کیاسارامعاشرہ خاموش ہو تو معاشرے کے لوگوں گناہ گار ہوں گے ؟

(4)کیا اہل حدیث مسلک کی وجہ سے لڑکے لڑکی کے لیے کوئی گنجائش موجود ہے کہ وہ واپس اکٹھے ہوجائیں ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)تین طلاقیں خواہ ایک ہی مجلس میں دی جائیں  یا الگ الگ مجالس میں ،تین ہی ہوتی ہیں اور تین طلاق کے بعد چونکہ

بیوی شوہر کے لیے حرام ہوجاتی ہے اور صلح کی گنجائش نہیں رہتی ،اس لیے تین طلاق  کے بعد میاں بیوی اکٹھے نہیں رہ سکتے۔

(2)لڑکی کے والدین کے لیے جہاں تک ممکن ہو وہ بیٹی کو اس مرد سے علیحدگی اختیار کرکے گناہ سے باز آنے  کا حکم دیں ،اگرپھر بھی  وہ باز نہ آئے تو والدین گناہ گار نہ ہوں گے ۔

(3)معاشرے کے لوگوں پر یہ فرض ہے کہ وہ ان کے درمیان تفریق کروانے کی کوشش کریں اور جب تک وہ اس حرام کاری سے باز  نہ آئیں ان کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہ رکھیں ۔

(4) ایک ساتھ تین طلاقوں کے ایک طلاق ہونے کا مسلک جمہور صحابہؓ،وتابعین ،وتبع تابعین اور ائمہ اربعہؒ میں سے کسی کا مسلک نہیں،یہ صرف اہل حدیث اور شیعہ حضرات کا مسلک ہے جو جمہور امت کے مقابلے میں قابل اعتبار نہیں ،حتی کہ اگر کوئی عدالت بھی ایک ساتھ تین طلاقوں کے ایک ہونے کا فیصلہ کردے تو وہ شرعاًقابل اعتبار نہیں ۔

فتاوی عالمگیری (411/2)میں ہے :وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها .فتح القدیر(449/3)میں ہے :  (وطلاق البدعة أن يطلقها ثلاثا بكلمة واحدة،فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيا)وطلاق البدعة ماخالف قسمي السنة وذلك بأن يطلقها ثلاثا بكلمة واحدة أو مفرقة في طهر واحد  أو ثنتين كذلك أو واحدة في الحيض أو في طهر قد جامعها فيه أو جامعها في الحيض الذي يليه هو فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيا وفي كل من وقوعه وعدده وكونه معصية خلاف فعن الإمامية لا يقع بلفظ الثلاث ولا في حالةالحيض لأنه بدعة محرمة……….وقال قوم يقع به واحدة وهو مروي عن ابن عباس رضي الله عنهما وبه قال ابن إسحاق ونقل عن طاوس وعكرمة أنهم يقولون خالف السنة فيرد إلى السنة…….وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاثا……… وقول بعض الحنابلة القائلين بهذا المذهب توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم عن مائة ألف عين رأته فهل صح لكم عن هؤلاء أو عن عشر عشر عشرهم القول بلزوم الثلاث بفم واحد بل لو جهدتم لم تطيقوا نقله عن عشرين نفسا باطل أما أولا فإجماعهم ظاهر فإنه لم ينقل عن أحد منهم أنه خالف عمر رضي الله عنه حين أمضى الثلاث وليس يلزم في نقل الحكم الإجماعي عن مائة ألف أن يسمى كل ليلزم في مجلد كبير حكم واحد على أنه إجماع سكوتي وأما ثانيا فإن العبرة في نقل الإجماع ما نقل عن المجتهدين الا العوام والمائة الألف الذين توفي عنهم رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تبلغ عدة المجتهدين الفقهاء منهم أكثر من عشرين كالخلفاء والعبادلة وزيد بن ثابت ومعاذ بن جبل وأنس وأبي هريرة رضي الله عنه وقليلون والباقون يرجعون إليهم ويستفتون منهم وقد أثبتنا النقل عن أكثرهم صريحا بإيقاع الثلاث ولم يظهر لهم مخالف فماذا بعد الحق إلا الضلال وعن هذا قلنا لو حكم حاكم بأن الثلاث بفم واحد واحدة لم ينفذ حكمه لأنه لا يسوغ الاجتهاد فيه فهو خلاف لا اختلاف والرواية عن أنس بأنها ثلاث أسندها الطحاوي وغيره. احسن الفتاوی(199/5)میں ہے :"…..حاصل یہ ہے کہ تین طلاقوں کے بعد کسی غیر مقلد سے فتویٰ لینا باجماع ِ امت حرام ہے اور خود غیر مقلدین کے امام حافظ ابن تیمیہ اس کی حرمت پر اجماع امت کے قائل ہیں ،غیر مقلد سے فتویٰ لینے سے بیوی حلال نہیں ہوتی ،یہ مرد اور عورت دونوں عمر بھر بدکاری کے گناہ میں مبتلارہیں گے ،عذاب آخرت کے علاوہ دنیوی وبال الگ ،اہل اثر مسلمانوں پر فرض ہے کہ ان میں تفریق کرائیں ،اور جب تک وہ اس حرام کاری سے باز نہیں آتے ان کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہ رکھیں،ورنہ دنیوی وبال واخروی عذاب میں ان کے ساتھ وہ سب لوگ بھی شریک ہونگے جو اُن سے قطع تعلق نہیں کرتے،اور ان کو حرام کاری سے روکنے کی کوشش نہیں کرتے”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved