• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

: ’’مجھ سے طلاق لے،خلع لے ‘‘ طلاق وخلع کا حکم

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں:

۱۔ کہ ***** کی زوجیت باقاعدہ نکاح سے*****کے ساتھ قرار پائی۔رخصتی ابھی فی الحال باقی ہے حقوق زوجیت ادا ہوچکے ہیں ۔بارہ رمضان کو نکاح ہوا کچھ ماہ بعد میں نے اپنے شوہر سے غلط فہمی کی بنا پر طلاق کا مطالبہ کردیا اور تین دن کا ٹائم دیا سوچنے کے لیے ۔میں میکے بیٹھی تھی شوہر نے اس بارے میں بہت سمجھایا کہ ایسا ہر گز نہ کرو میں نے نہ مانی رات کو بھی موبائل پر غلط فہمیوں کے بارے میں بات چیت ہو رہی تھی اور میں شوہر پر تنقید کررہی تھی کہ شوہر کو غصہ آگیا ۔میں غصہ میں نہ تھی شوہر نے کہا ’’تم مجھ سے طلاق لے لو،تم مجھ سے خلع لے لو ،تو گندی عورت ہے ‘‘میں بولی خلع کے بدلے کیا لوگے ؟وہ بولامیرا حق مہر اور عیدی کپڑے واپس کرنا ہوں گے ،میں بولی ٹھیک ہے ۔شوہر نے کہا پانچ لاکھ روپے بھی ساتھ دے میں بولی ٹھیک ہے ۔میں ابو سے بات کرتی ہوں۔ شوہر بولا صبح آکر طلاق لے لے ’’دفع ہو میرے مگروں لتھ ،گندی عورت ،توکتی ہے ،دفع ہو جا،تم وفادار نہیں ہو ،تم پاکیزہ نہیں تم غلیظہ ہو، پھر تین دن بعد شوہر اپنے والدین کے ساتھ میرے میکے معافی مانگنے لگا میں نے حق مہر واپس کرنا چاہا تو شوہر نے واپس مجھی کو لوٹادیا اور بولا کہ ایسے نہ کرو میں بھول گیا ۔پھر کچھ دن بعد صلح ہو گئی اس دران مجھے دو حیض آچکے تھے ہم ملتے بھی رہے۔

۲۔ پھر اس معاملہ کے بعد تیسرے حیض آنے سے پہلے یعنی چند ماہ بعد شوہر نے فون پر مجھے اپنے پاس بلایا میں نے انکار کیا ۔بار باراصرار کے بعد بھی انکار کرتی رہی کہ میرا آنا مشکل ہے۔پھر کچھ باتوں کے بعد شوہر کو غصہ آگیا کہنے لگا’’تم نے نہیں آنا تو دفع ہو ،منگروں لتھ ،جتھے مرضی جا،گندی عورت ،تیرے غیروں سے تعلقات ہیں ،ٹھیک ہے مجھ سے طلاق لے لے خلع لے لے میری ہر چیز واپس کر ،دفع ہو ۔اس سے اگلے روز میں شوہر کے پاس روتی ہوئی آئی اور مطالبہ کیا میرے ساتھ کیا کرو گے ؟شوہر کا غصہ کا فور ہو چکا تھا اس نے مجھے لکھ دیا کہ میں اپنی زندگی تیرے نام کرتا ہوں بڑے خوش وحواس کے ساتھ کہہ رہا ہوں i love you،اللہ کی قسم یہ معاملہ بھی سلجھ گیا مگر میں اندر سے ٹوٹ چکی تھی ۔لیکن شوہر سے معاملہ محبت پیار کا ہی رہا شو ہر نے بھی کہا جو تمہیں اچھا لگتا ہے فیصلہ کرلو  میں مجبور نہیں کروں گا تمہاری اپنی زندگی ہے ،میں نے دل میں فیصلہ کرلیا کہ شوہر کے ساتھ نہیں رہنا۔مگر شوہر سے قلبی محبت اور ہمدری بھی ہے کہ اس کا گھر کہیں برباد نہ ہو جائے وہ بھی یہی چاہتا ہے کہ میرا گھر برباد نہ کرنا۔

۳۔            پھر تیسری مرتبہ اسی کشمکش میں ہم ذہنی طور پر مثبت سوچنے لگے اور شوہر نے پھر فون کرکے کسی معاملے میں مجھے اپنے پاس بلایا ،باربار پیار سے اصرار کیا میں نے آنے سے انکار کیا ،میرے شوہر انکار کی وجہ سے پھر جذبات وغصے میں آگئے بولے تم میرے پاس نہیں آتی تم مجھ سے طلاق لے کرفلاں کے پاس جانا چاہتی ہو تم نے فلاں کو میرا مال بغیر پوچھے دیا ۔کیوں دیا؟ ’’دفع ہو جا،جو مرضی کر جو تمہیں اچھا لگتا ہے فیصلہ کرلو،میں بولی کیا یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے؟ شوہر بولا ابھی کچھ دن خاموش رہو ‘‘میرا شوہر شرمندگی اور ندامت سے اب روتا ہے جبکہ میں تیسرے حیض سے پاک ہو چکی ہوں اسے احساس دلاتی ہوں تو وہ پشیمان ہوتا ہے وہ کہتا ہے کہ میں نے طلاق دینے کی الفاظ کنایہ میں نیت نہیں کی تھی بلکہ بطور گالی کے کہاتھا دیانتہ بینہ وبین اللہ لم انوی الطلاق ۔

میں خود بھی بڑی پریشان ہوں ۔دوخاندانوں کا معاملہ ہے ۔میرے نکاح کے اثبات کے بارے میںکیاحکم ہے؟کیا کوئی  صلح کی صورت ہو سکتی ہے ؟ہم دونوں نہایت پشیمان وپریشان ہیں کہ ہمیں معلوم بھی نہیں ہوا ہمیں اب کیا کرنا ہو گا؟یہ سب رخصتی میں تاخیر کرنے کی وجہ سے ہوا ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں خاوند کے بولے گئے الفاظ میں سے کچھ تو گالیاں اور کوسنے کے الفاظ ہیں جیسے گندی عورت ،تو کتی ہے ،تم وفادار نہیں ہو ،تم پاکیزہ نہیں ،تم غلیظہ ہو ،تیرے غیروں سے تعلقات ہیں ،تم مجھ سے طلاق لے کر فلاں کے پاس جانا چاہتی ہو،اور کچھ الفاظ خلع اور طلاق کی پیشکش ہیں جیسے تم مجھ سے طلاق لے لو ،تم مجھ سے خلع لے لو ،صبح آکرطلاق لے لے،مجھ سے طلاق لے لے ،خلع لے لے تمہیں جواچھا لگتاہے فیصلہ کرلو۔جبکہ کچھ الفاظ طلاق کے کنایات سے تعلق رکھتے ہیں جیسے دفع ہو ،میرے مگروں لتھ(یعنی میرا پیچھا چھوڑ) ،دفع ہو جا، جتھے مرضی جا(جہاں مرضی جا)،جو مرضی کر۔مذکورہ صورت میں گالیوں سے تو کوئی طلاق نہیں ہوئی اسی طرح خلع یا طلاق کی پیشکش کے جواب میں بھی بیوی نے حتمی قبول نہیں کیا اس لیے ان الفاظ سے بھی کوئی طلاق نہیں ہوئی۔البتہ کنایات طلاق کے الفاظ قابل غور ہیں:’’دفع ہو ،دفع ہو جا اور میرے مگروں لتھ (یعنی میرا پیچھا چھوڑ)‘‘یہ الفاظ کنایات کی قسم اول سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ ان میں طلاق کے مطالبہ کو مسترد کرنے کا احتمال ہے کنایات طلاق کی اس قسم میںطلاق کے لیے ہر حال میں نیت درکار ہوتی ہے ’’جھتے مرضی جا(جہاں مرضی جا) یا جو مرضی کر‘‘یہ الفاظ مرادف ہیں ’’حبلک علی غاربک‘‘ کے جو کنایہ کی قسم ثانی ہے اس قسم میں مذاکرہ طلاق ہو تو بغیر نیت کے طلاق بائن واقع ہو جاتی ہے اور اگر خالی غصہ ہو تو طلاق نیت پر موقوف ہوتی ہے سائل نے جس وقت یہ الفاظ کہے ہیں اس وقت اگرچہ غصہ تھا لیکن مذاکرہ طلاق نہیں تھا اس لیے ان الفاظ سے بھی طلاق نیت پر موقوف ہو گی ۔مذکورہ صورت میں شوہر کے بقول طلاق کی نیت نہیں تھی اس لیے اگر شوہر اپنی بیوی کے سامنے طلاق کی نیت نہ ہونے پرقسم دیدے تو کوئی طلاق واقع نہ ہو گی اور اگر قسم دینے سے انکار کرے تو بیوی اپنے حق میں ایک بائنہ طلاق سمجھے گی جس سے نکاح ختم ہو جاتا ہے تاہم دوبارہ سے دوگواہوں کی موجودگی میں نکاح کرکے اکٹھے رہ سکیں گے ۔چنانچہ امداد الفتاوی(/5قاسمی ،جبریل) میں ہے:

لفظ نکل جا میں مطلقا حاجت نیت کی ہے اور لفظ’’ جہاں چاہے چلی جا‘‘ مثل خلیہ بریہ بحالت مذاکرہ بلانیت طلاق بائن واقع ہوتی ہے

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved