• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مسئلہ تین طلاق

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میرا نام **** ہے اور میں امریکہ میں رہتا ہوں میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کن حالات میں طلاق نہیں ہوتی اور اپنی بیوی کے ساتھ رہنے کے لیے کیا پروسیجر ہوتا ہے ؟میری معلومات کے مطابق جب طلاق دے دی جائے تو میاں بیوی تین ماہ تک اکٹھے رہ سکتے ہیں اور اگر ان کے مسائل حل ہو جائیں اور باہم رہنے پر رضامند ہو جائیں تو اکٹھے رہ سکتے ہیں۔  کیا یہ درست ہے؟

وضاحت مطلوب ہے :

()آپ یہ سوال جس واقعہ کے ضمن میں پوچھنا چاہتے ہیںوہ واقعہ پورا تفصیل سے ذکر کریں اور طلاق کے الفاظ کیا استعمال کیے تھے اور کتنی مرتبہ استعمال کیے تھے یہ بھی ہمیں بتا دیں تاکہ آپ کے سوال پر غور کیا جائے اور پھر آپ کو جواب سے مطلع کردیا جائے۔

جواب وضاحت:

()میرے والدین کا باہمی جھگڑا ہو رہا تھا۔ مسئلہ کے حل کے لیے ایک مہمان بھی آئے ہوئے تھے۔ گفتگو کے درمیان بات گرم ہو گئی اور میرے والد صاحب نے 3 مرتبہ کہا: میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔ اس وقت کمرے میں ایک ہی گواہ تھا۔ میں دوسرے کمرے میں موجود تھا میں نے وہاں سے سنا۔

وضاحت مطلوب ہے

کیا والد اس وقت غصے میں تھے اگر تھے تو کس قدر؟ اور غصے میں کوئی غیر معمولی کام بھی کیا؟

جواب وضاحت :

جی وہ غصے میں تھے اور انہوں نے کوئی خلاف عادت حرکت نہیں کی البتہ والدہ کو مارا تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جواب سے پہلے دو باتیں پیش نظر رہنا ضروری ہے:

۱۔طلاق کے بار ے میں شریعت نے یہ رہنمائی دی ہے کہ ضرورت کے وقت دی جائے اور صرف ایک طلاق دی جائے تاکہ بعد میں رجوع کا موقع باقی رہے ۔ایک وقت میں ایک سے زیادہ طلاقیں نہ دی جائیں۔ تاہم اگر کوئی ایسا کردے یعنی ایک وقت میں تین طلاقیں دید ے تو یہ طریقہ ناپسندیدہ ہونے کے باوجودتینوں طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں ۔چنانچہ مسلم شریف میں ہے :

عن مجاهد قال کنت عند ابن عباس ؓ فجاء ه رجل فقال انه طلق امرأته ثلاثا فسکت حتي ظننت انه سيردها اليه فقال ينطلق احدکم فيرکب الاحموقة ثم يقول يا ابن عباس ان الله قال ومن يتق الله يجعل له مخرجا وانک لم تتق الله فلااجدلک مخرجا عصيت ربک وبانت منک امرأتک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ابودائود ،رقم الحديث:2197)

ترجمہ:        مجاہدؒ کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے پاس (بیٹھا)تھا کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہا کہ اس نے اپنی بیوی کو (اکٹھی )تین طلاقیں دے دی ہیں تو (کیا کوئی گنجائش ہے ۔اس پر)عبد اللہ بن عباس ؓاتنی دیر تک خاموش رہے کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ (حضرت کوئی صورت سوچ کر )اسے اس کی بیوی واپس دلادیں گے۔پھر انہوں نے فرمایا تم میں سے ایک شروع ہوتا ہے تو حماقت پر سوار ہو جاتا ہے (اور تین طلاقیںاکٹھی دے بیٹھتا ہے) پھر آکر کہتا ہے اے ابن عباس !اے ابن عباس!(کوئی راہ نکالیے)کی دہائی دینے لگتا ہے ۔اللہ تعالی کافرمان ہے :

ومن يتق الله يجعل له مخرجا

ترجمہ:        جو کوئی اللہ سے ڈرے تو اللہ اس کے لیے خلاصی کی راہ نکالتے ہیں۔

تم نے تو اللہ سے خوف نہیں کیا (اور تم نے اکٹھی تین طلاقیں دے دیں جو کہ گناہ کی بات ہے)تو میں تمہارے لیے کوئی راہ نہیں پاتا (اکٹھی تینوں طلاقیں دے کر)تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تمہاری بیوی تم سے جدا ہو گئی۔

۲۔اگر طلاق دیتے وقت آدمی ایسے غصے میں ہو کہ اسے یہ بھی ہو ش نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے یا غصے میں اس سے عادت کے خلاف اقوال وافعال صادر ہونے لگیں مثلا اول فول منہ سے نکلنے لگے یا اپنا سر وغیرہ دیوار میں مارنے لگے یا برتن وغیرہ توڑنے لگے تو ایسی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی ۔لیکن اگر غصے کی حالت ایسی نہ ہو تو غصے میں دی گئی  طلاق بھی واقع ہو جاتی ہے ۔

مذکورہ صورت میں آپ کے والد صاحب نے اگرچہ غصے میں طلاق دی ہے مگر طلاق کے الفاظ بولتے وقت غصے کی حالت ایسی نہیں تھی کہ اسے یہ بھی ہوش نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور نہ ہی ایسی تھی کہ اس سے خلاف عادت اقوال وافعال صادر ہونے لگے ہوں ،اس لیے غصے کی مذکورہ حالت میں دی گئی تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے نکاح مکمل طور سے ختم ہو گیا ہے ۔اب نہ صلح ہو سکتی ہے اور نہ رجوع کی گنجائش ہے۔

حاشية ابن عابدين (3/ 244)

فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحکم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته وکذا يقال فيمن اختل عقله لکبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن کان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن إدراک صحيح کما لا تعتبر من الصبي العاقل

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved