• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

صریح طلاق کے بعد سادے کاغذ پر تین طلاق لکھنے سے طلاق کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں******نے اپنی منکوحہ مدخولہ بیوی****** کو ایک دفعہ ناچاکی کی بناء پر زبانی طور پر یہ الفاظ کہے کہ ’’میں نے تمہیں طلاق دی ‘‘تو میری بیوی نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ لیا جس کو عرصہ ایک سال ہو گیا ہے۔دوبارہ ہم نے اسی دن رجوع کرلیا ۔اب مورخہ 13-11-2018کو صبح ساڑھے نوبجے چھوٹے سادے کاغذ پر ’’طلاق ، طلاق،طلاق،اگر فوزیہ تم نے دروازے کے باہر قدم رکھا تو طلاق ہو جائے گی ،اج تو جاکے وکھا ‘‘ ،تحریر کیئے، اس دوران ہمارے درمیان کو ئی گواہ نہیں تھااور میری بیوی نے اپنا قدم باہر نہ رکھا ،شام کو میری بیٹی نے کھانا وغیرہ بنایا تو گھر کے افراد نے بہنوئی اور بہن کو بھی کھانا کھلایا اور میری بیوی نے بھی کھانا کھایا ۔

تقریبا رات گیارہ بجے تک میری بیوی گھر میں رہی اس نے اپنا قدم باہر نہ رکھا ابھی ہم لوگ کھانا کھا کر فارغ ہوئے ہی تھے کہ میری بیوی کا بھائی شوکت عباس ،غضنفر عباس اور میری ساس اور میری سالی اور میری ساس کی نند اور اس کا خاوند محمد زاہد میری بیوی فوزیہ عباس کے چچا محمد سجاد اور دیگر رشتے داران آگئے اور باتیں ہوتی رہیں اس دوران میری ساس اور ساس کی نند اور سالی انہوں نے میری بیوی کو برقعہ پہنایا اور دھکے دیتے ہوئے گھر کے برآمدے تک لائے اور پھر وہ رک گئی تو پھر میری بیوی کو دھکے دیتے ہوئے زبردستی پانی والی موٹر تک لائے اور بیوی موٹر تک آکر رک گئی ،میرے روکنے کے باوجود بھی میری بیوی کو دھکے دے کر گیٹ تک لائے لیکن وہ رک گئی ،میں جلدی سے دروازے کے آگے آکر کھڑا ہوگیا،میں نے کہافوزیہ طلاق نہیں ہے ؟باہر نہ جائو لیکن میری بیو ی کو میری ساس، میری ساس کی نند نے زبردستی پکڑا اور گیٹ کے باہر نکالنے کی کوشش کی میری بیوی کے پیچھے کھڑے ہوئے سالوں نے میری بیوی کو دو دھکے دیئے تو میری بیوی گیٹ کے باہر چلی گئی تو میری ساس اس کو اپنے گھر لے گئی ۔کیا ان حالات اور واقعات میںطلاق واقع ہوگئی یا نہیں؟

وضاحت مطلوب ہے:(۱)کاغذ پر لکھے الفاظ میں خاوند کی نیت کیا تھی ؟کیا طلاق دینا چاہتا تھا ؟یاکوئی اور مقصد تھا؟

(۲)اس کاغذ کی نقل مہیا کی جائے۔

جواب وضاحت: (۱)میرا مقصد طلاق کا نہیں تھا بلکہ اس کو اپنے میکے جانے سے روکنا تھا ۔اس کے علاوہ کوئی گواہ بھی نہیں تھا۔ ((۲)طلاق ،طلاق ،طلاق اگر تم فوزیہ نے دروازے کے باہر قدم رکھا تو طلاق ہو جائے گی)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں پہلی زبانی طلاق ہوگئی تھی او راس سے رجوع بھی ہو گیا تھا اس کے بعد تحریر کیے گئے الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ۔

توجیہ:         (۱)تحریرمیں تین طلاقیں اگرچہ بغیر شرط کے ہیں لیکن چونکہ تحریر غیر مرسوم ہے اورز وج کی نیت تہدید کی ہے اس لیے یہ طلاقیں غیر موثر ہوئیں(۲)تعلیق والی طلاق کے الفاظ میں صیغہ مستقبل کااستعمال ہوا ہے اور موقع تہدید زوجہ کا ہے،ایسی صورت میں زوج کی نیت معتبر ہوتی ہے ۔صحت تعلیق کی صورت میں بھی خروج نہیں پایا گیا بلکہ زبر دستی اخراج پایا گیا ہے ۔ اس لیے شرط نہ پائی گئی۔

نوٹ خاوند کی نیت تحریر سے طلاق کی نہیں تھی اس پر بیوی کے سامنے حلف دینا ضروری ہو گا۔

في الاختيار(42/4:شامله)

حلف لايخرج فامر رجلا فاخرجه حنث وان اخرجه مکرها لايحنث۔

في البحر 335/4

قيد بکونه اخرج مکرها اي حمله المکره واخرجه لانه لو خرج بنفسه مکرها وهو الاکراه المعروف وهو ان يتوعده حتي يفعل فانه حينئذ يحنث لما عرف ان الاکراه لايعدم الفعل عندنا ۔وتمامه فيه ۔

وفي البحر277/7

والمرأة کالقاضي اذا سمعته او اخبر ها عدل لا يحل لها تمکينه

وفي امداد الحکام561/3

قال في عدة ارباب الفتوي ومالا يصدق فيه المرأة عندالقاضي لايفتي فيه کما لايقضي فيه وقال في شرح نظم النقاية وکما لايدينه القاضي کذالک اذا سمعته منه المرأة او شهد به عندها عدول لايسعها ان تدينه لانها کالقاضي لاتعرف منه الاالظاهر۔

الفتاوي الهندية (1/ 433)

إذا قال لامرأته في حالة الغضب إن فعلت کذا إلي خمس سنين تصيري مطلقة مني وأراد بذلک تخويفها ففعلت ذلک الفعل قبل انقضاء المدة التي ذکرها فإنه يسأل الزوج هل کان حلف بطلاقها فإن أخبر أنه کان حلف يعمل بخبره ويحکم بوقوع الطلاق عليها وإن أخبر أنه لم يحلف به قبل قوله کذا في المحيط

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved