• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شدید غصہ کی حالت میں طلاق دینے کا حکم

استفتاء

مفتی صاحب! آج صبح 9:00 بجے میں نے اپنے بیٹے کو سمجھانے کی غرض سے اپنے پاس بلایا اور اس سے رات کو ہوئے ساس بہو کے جھگڑے کے بارے میں پوچھ رہا تھا لیکن وہ میرے ہر سوال پر خاموش بیٹھا رہا، بالآخر میں نے اس سے کہا کہ اپنی بیوی کو بھی سامنے لاؤ اور یہ فیصلہ کرو کہ  کیا کرنا ہے، الگ رہنا ہے یا ساتھ؟ اگر الگ رہنا ہے تو جاؤ جہاں چاہو کرایہ پر رہو۔ یہ بات میں نے غصہ میں کہی تھی اور کافی دیر میں بولتا رہا مگر اس نے جواب نہ دیا، پھر میں نے کہا اگر ساتھ رہو گے تو تیری بیوی کو گھر کے کام کرنے ہونگے جیسا ہم کھائیں گے ویسا ہی تم کو ملے گا، لیکن پھر بھی نہیں بولا، میں نے پھر سے پوچھا تو اس نے بہن بھائی کے شکوے شروع کردیئے، میں نے کہا کہ میں تیرے شکوے نہیں سننے بیٹھا، فیصلہ کرو کہ  کیا کرنا ہے؟ لڑکے کی بیوی بھی وہیں بیٹھی تھی ، بس یہ بات سنی تو فوراً بہت غصے میں بولا کہ کیا میں اس کو طلاق دے دوں؟ دوں طلاق ؟ بس ابھی انہی الفاظ کی تکرار ہوئی تو فوراً لڑکے کی والدہ نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھا، لڑکے کی بھابھی بھی بھاگ کر آگئی لڑکے کی بہن بھی آگئی، میں (اس کا والد ) بھی وہیں تھا۔ میں (والد) جب بیٹے کو بالوں سے پکڑ  کر صحن میں لے گیا  تو اتنے میں چچا بھی آگیا۔ لڑکا انتہائی غصہ میں تھا، اس نے ایک راڈ  اٹھا لیا کہ میں اپنے آپ کو ماروں گا۔ چچا کا کہنا ہے کہ لڑکا باہر نکلا تو گاڑی کے نیچے آنے لگا کہ میں مروں گا۔ الٹیاں لگ گئیں نیم بیہوشی کے حالت میں ہسپتال لے گئے ڈرپ وغیرہ کے بعد طبیعت ٹھیک ہوئی۔

(1)اب چچا کہتا ہے کہ اس نے 5یا 6بار کہا کہ ’’میں نے طلاق دی‘‘ حالانکہ چچا تو طلاق کے الفاظ بولتے وقت وہاں موجود ہی نہ تھا بلکہ بعد میں آیا تھاجب والد لڑکے کو بالوں سے پکڑ کر صحن میں لے گیا تھا،بعد میں جب چچا سے کہا کہ آپ اپنی بات پر حلف دو تو وہ بھاگ گیا۔

(2)ماں اور بہن کہتی ہے ہمیں کوئی درست سمجھ نہیں آیا۔ طلاق دے دوں گا  یا دوں طلاق۔ ہمیں سمجھ نہیں آیا۔

(3)بھابھی کہتی ہے کہ اس نے کہا کہ  ’’میں نے طلاق دی‘‘ تو اس کے منہ پر ہاتھ رکھ لیا، ہاتھ چھُڑا کر پھر اس نے کہا کہ ’’طلاق، طلاق‘‘ اتنی دیر میں لڑکے کے والد یعنی میں نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھا اور اس کو بالوں سے پکڑکر باہر لے آیا۔

(4)میں (لڑکے کا والد) نے ایک دفعہ’’طلاق اے‘‘ کا لفظ سنا اور دوسری دفعہ ادھور سنا یعنی دو دفعہ ’’طلاق اے، طلاق اے‘‘ کا لفظ سنا۔

(5)لڑکا کہتا ہے کہ میں نے صرف ایک طلاق کا جملہ بولا تھا اس کے علاوہ ابو سے کہہ رہا تھا کیا میں طلاق دے دوں؟ اسے چھوڑ دوں، وغیرہ، مجھے معلوم تھا کہ تین دفعہ سے طلاق ہوجاتی ہے۔

(6)لڑکی (بیوی) یہ بات کہہ رہی ہے کہ میں نے ایک بار بھی طلاق کے درست الفاظ نہیں سنے۔

(7) لڑکے کی شادی سے پہلے بھی ایک دفعہ شدید غصہ کی وجہ سے ایسی حالت ہوگئی تھی کہ الٹیاں لگی گئیں تھیں اور حالت بہت خراب ہوگئی تھی۔

بیوی کا بیان:

’’اس وقت جو بات بھی ہوئی ہے وہ مجھے یاد نہیں کیا الفاظ بولے کتنی دفعہ بولے اور کیسے بولے مجھے کچھ یاد نہیں۔ بس یہی پتہ چل رہا تھا کہ انہوں نے وہ (طلاق) لفظ بولا ہے لیکن کیسے بولا ہے مجھے یاد نہیں۔‘‘

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ کیونکہ طلاق کے الفاظ بولتے وقت شدید غصہ کی وجہ سے اگر شوہر کی ایسی حالت ہوجائے کہ اس سے خلافِ عادت اقوال وافعال صادر ہونے لگیں تو غصہ کی ایسی کیفیت میں دی گئی طلاق معتبر نہیں ہوتی۔ مذکورہ صورت میں بھی جب شوہر نے طلاق کے الفاظ بولے تو اس وقت اس سے خلافِ عادت افعال مثلا راڈ  سے اپنے آپ کو مارنے کی کوشش کرنا اور گاڑی کے نیچے آنے کی کوشش کرنا وغیرہ صادر ہوئے ہیں، لہٰذا غصے کی ایسی حالت میں دی گئی طلاق معتبر نہیں۔

رد المحتار(439/4) میں ہے:”وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله.الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة على عدم نفوذ أقواله. اه….(وبعد اسطر) فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن إدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل“۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved