• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاق کے بعد اسقاطِ حمل كروایا اور بچے کے اعضاء بننے کا علم نہیں، اب عدت کا کیا حکم ہے؟

استفتاء

میں ایک ذہنی مریضہ ہوں جس کی وجہ سے شوہر کے ساتھ مسائل بڑھتے جارہے تھے، انہوں نے طلاق دے دی ہے، تین دفعہ صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ’’میں نے طلاق دی‘‘ میں اس وقت حاملہ تھی اور ذہنی مریضہ بھی جس کی وجہ سے طلاق کے چند دن بعد ہی Abortion (اسقاطِ حمل) کروانا پڑا، شوہر نے بچے کو ماننے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ بچہ ابھی پونے 3مہینے کا تھا، بچے کے اعضاء نہیں بنے تھے مگر دل کی دھڑکن تھی۔ ہم نے مفتی**صاحب سے مسئلہ پوچھ کر Abortion کروایا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ بچہ اگر  4مہینے سے کم ہے تو آپ کرواسکتے ہیں۔ آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ (1)اس صورتحال میں میرے لیے عدت کا کیا حکم ہے؟ اور (2)مجھے ہر ہفتے دماغ کے ڈاکٹر کے پاس جانا ہوتا ہے، کیا یہ میرے لیے جائز ہے؟

تنقیح: اسقاطِ حمل کے بعد دو دن تک خون آیا تھا پھر رک گیا تھا۔

وضاحت مطلوب ہے کہ: آپ کو کیسے پتہ چلا کہ بچے کے اعضاء نہیں بنے تھے؟

جوابِ وضاحت: ایک ڈاکٹر نے اندازے سے بتایا تھا کہ اتنے عرصے میں اعضاء نہیں بنتے، میں نے خود نہیں دیکھا تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)عام طور پر پونے تین ماہ کے حمل کے اعضاء بن جاتے ہیں لیکن کسی عارضے مثلا بچے کی بڑھوتری (growth)  رکنا وغیرہ کی وجہ سے اعضاء کا نہ بننا بھی ممکن ہے۔ مذکورہ صورت میں بچے کے اعضاء کا بننا یا نہ بننا حتمی طور پر معلوم نہیں جیسا کہ عورت کا بھی یہ کہنا ہے کہ اس نے خود نہیں دیکھا، لہٰذا اس صورت میں احتیاط اسی میں ہے کہ عورت اسقاطِ حمل کے بعد مکمل تین حیض عدت گزارے۔

نیز حیض کی کم سے کم مدت تین دن ہے اور مذکورہ صورت میں چونکہ اسقاطِ حمل کے بعد تین دن سے پہلے ہی خون بند ہوگیا تھا اس لیے اسقاطِ حمل کے بعد آنے والا خون حیض شمار نہ ہوگا بلکہ اس کے بعد مکمل تین حیض گزارنے ہوں گے۔

(2)اگر ڈاکٹر کو دکھانا ضروری ہو اور محض حال بتا کر دوائی نہ مل سکتی ہو اور ڈاکٹر کو گھر بلانا بھی ممکن نہ ہو تو ایسی مجبوری میں آپ ڈاکٹر کے پاس جاسکتی ہیں۔

در مختار مع رد المحتار (1/549) میں ہے:’’(وسقط) مثلث السين: أي مسقوط (ظهر بعض خلقه كيد أو رجل) أو أصبع أو ظفر أو شعر، ولا يستبين خلقه إلا بعد مائة وعشرين يوما (ولد) حكما (فتصير) المرأة (به نفساء والأمة أم ولد ويحنث به) في تعليقه وتنقضي به العدة، فإن لم يظهر له شيء فليس بشيء، والمرئي حيض إن دام ثلاثا وتقدمه طهر تام وإلا استحاضة ولو لم يدر حاله ولا عدد أيام حملها ودام الدم تدع الصلاة أيام حيضها بيقين ثم تغتسل ثم تصلي كمعذورقوله: (أي مسقوط) الذي في البحر التعبير بالساقط وهو الحق لفظا ومعنى؛ أما لفظا فلأن سقط لازم لا يبنى منه اسم المفعول، وأما معنى فلأن المقصود سقوط الولد سواء سقط بنفسه أو أسقطه غيره. ح. قوله: (ولا يستبين خلقه إلخ)……. أقول: لكن يشكل على ذلك قول البحر: إن المشاهد ظهور خلقه قبل هذه المدة، وهو موافق لما في بعض روايات الصحيح «إذا مر بالنطفة ثنتان وأربعون ليلة بعث الله إليها ملكا فصورها وخلق سمعها وبصرها وجلدها» وأيضا هو موافق لما ذكره الأطباء. نعم نقل بعضهم أنه اتفق العلماء على أن نفخ الروح لا يكون إلا بعد أربعة أشهر أي عقبها ……. ولا ينافي ذلك ظهور الخلق قبل ذلك؛ لأن نفخ الروح إنما يكون بعد الخلق…….. قوله: (ولو لم يدر حاله إلخ) أي لا يدري أمستبين هو أم لا؟ بأن أسقطت في المخرج واستمر بها الدم، فإذا كان مثلا حيضها عشرة وطهرها عشرين ونفاسها أربعين، فإن أسقطت من أول أيام حيضها تترك الصلاة عشرة بيقين ……. إلى أن قال …… وحاصل هذا كله أنه لا حكم للشك، ويجب الاحتياط اه. من البحر وغيره.“

در مختار مع رد المحتار (5/192) میں ہے:’’(و) في حق (الحامل) مطلقا ولو أمة، أو كتابية، أو من زنا بأن تزوج حبلى من زنا ودخل بها ثم مات، أو طلقها تعتد بالوضع جواهر الفتاوى (وضع) جميع (حملها)قوله: (وضع حملها) أي بلا تقدير بمدة سواء ولدت بعد الطلاق، أو الموت بيوم، أو أقل جوهرة، والمراد به الحمل الذي استبان بعض خلقه، أو كله، فإن لم يستبن بعضه لم تنقض العدة لأن الحمل اسم لنطفة متغيرة، فإذا كان مضغة، أو علقة لم تتغير، فلا يعرف كونها متغيرة بيقين إلا باستبانة بعض الخلق. بحر عن المحيط‘‘در مختار مع رد المحتار (5/229) میں ہے:’’(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved