• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زبردستی طلاق لکھوانے سے طلاق کاحکم

استفتاء

(1)ایک عورت نے خلع کا کیس کیا اور  15دنوں میں واپس لے لیا ، یہ عورت میری بھانجی ہے خلع کی وجہ یہ تھی کہ ان کی شادی کو 6سال ہوگئے ان کے ہاں اولاد نہیں ہوئی لڑکی کو ڈاکٹر نے کہا کہ آپ  میاں بیوی دونوں  ٹیسٹ کروائیں ،بس  یہ بات خلع کی وجہ  بنی (2)پھر اس کے بعد لڑکے کے بھائیوں نے زبردستی طلاق دلوادی۔اور لڑکے کو مار پیٹ کرکے سادے کاغذپر لکھوالیا (طلاق دیتاہوں ،طلاق دیتا ہوں ،طلاق دیتاہوں) کیا ایسے طلاق ہوجاتی ہے ؟آخری بات یہ ہے کہ لڑکی لڑکا دونوں اکٹھے رہنا چاہتے ہیں ۔کیا مذکورہ صورت میں اکٹھا رہنے کی کوئی گنجائش موجود ہے ؟

شوہر کا حلفی بیان:میں یہ تحریر اللہ تعالی کو حاضر ناظر جان کر بالکل سچ لکھ رہا ہوں ،دنیا کی خوشی کی خاطر میں اپنی آخرت خراب نہیں کروں گا ۔میرے ساتھ گھر والوں نے زبردستی کی ہے اور انہوں نے ماموں سے میری کافی پٹائی کروائی بھائیوں اور ماموں نے مل کر ایک سادہ کاغذ لے کر اس میں خود انہوں نے لکھنا شروع کردیا تین بار طلاق لکھ کر مجھ سے اس کاغذپرزبردستی سائن کروالیے اور کہتے ہیں کہ طلاق ہوگئی ہے میری نیت صاف تھی اللہ جانتا ہے ۔کیونکہ میں اور میری بیوی گھر بسانا چاہتے ہیں اور اب بھی میرے گھر والے  مخالف ہیں ،وہ ہمیں کہتے ہیں کہ تم اب بھی اگر اپنی بیوی کو لے کر آئے تو ہم تم کو گھر سے نکال دیں گے اور تم پر فتوی لگائیں گے کہ طلاق یافتہ عورت کو رکھا ہوا ہے پھر نہ تم مسجد میں نماز پڑھنے جاسکو گے اور نہ نماز جنازہ پڑھ سکو گے اب میں پریشان ہوں کہ کیا کروں ،اب آپ ہی کوئی حل بتائیں میری بیوی دو تین مرتبہ بے ہوش ہوچکی ہے ۔ آپ کے ادارے والے اگر کوئی فتوی دیں گے تو میرے گھر والے یقین کرلیں گے ۔

عورت کا بیان :دارالافتاء کے فون کے ذریعے بیوی سے رابطہ کیا گیا تو اس نے کہا کہ میں شوہر کی مذکورہ باتوں کی تصدیق کرتی ہوں کہ  میں نے15 دنوں میں خلع کا کیس واپس لے لیا تھا اور میرے شوہر سے زبردستی طلاق لکھوائی گئی ہے حالانکہ ان کی طلاق کی نیت نہ تھی ۔(رابطہ کنندہ :محمد سلیمان)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)چونکہ مذکورہ صورت میں بیوی  نے  15دنوں  کے اندر خلع کا کیس واپس لے لیا تھا اس لیے خلع نہیں ہوا اور سابقہ نکاح قائم ہے ۔(2) مذکورہ صورت میں شوہر کے دستخط کرنے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ شوہر کو مار پیٹ کے ذریعے دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا اور مکرہ کی تحریری طلاق واقع نہیں ہوتی ۔

بدائع الصنائع(229/3)میں ہے :أما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة، و لايستحق العوض بدون القبولفتاوی عالمگیری (256/2) میں ہے : رجل أكره بالضرب والحبس على أن يكتب طلاق امرأته فلانة بنت فلان بن فلان فكتب امرأته فلانة بنت فلان بن فلان طالق لا تطلق امرأتهفتاوی محمودیہ (651/12)میں ہے:سوال :زید اور اس کی بیوی میں مار پیٹ کا مقدمہ چلا ،زید پر عدالت سے بیس روپیہ جرمانہ ہوگیا ،زید نے عدالت بالامیں اپیل کی ،عدالت بالا نے زید سے فہمائش کی کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دیدے ،زید نے عذرکیا،زید کے عذر پر عدالت نے دھمکی دی کہ اگر دو منٹ کے اندر فیصلہ لکھ کر داخل نہ کیا تو تم کو جیل خانہ بھیج دیا جائے گا،زید نے اس دھمکی سے مرعوب ہو کر فیصلہ لکھواکردے دیا کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور اس نے مجھے مہرِ شرعی معاف کردیا ۔توکیا ایسی حالت میں طلاق شرعی ہوگی ؟ جواب :صورتِ مسئولہ میں اگر زید نے زبان سے طلاق نہیں دی ،بلکہ محض طلاق کی تحریردی ہے تو شرعاًاس کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوئی ۔اگر زبان سے بھی یہ الفاظ کہے ہیں کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دیدی،یا اپنی بیوی کو اپنی زوجیت سے آزاد کردیا تو شرعاًاس کی بیوی پر ایک طلاق واقع ہوگئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved