• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی کو ’’میں نے تمہیں فارغ کردیا‘‘ کہنے سے طلاق کاحکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء عظام بیچ اس مسئلہ کے (۱) شوہر نے اپنی ساس کو فون کرکے کہا کہ ’’میں نے آپکی بیٹی کو فارغ کرکے بھیجا ہے‘‘ ، (۲) اور یہی الفاظ شوہر نے اپنی والدہ کو بتانے کے لئے دہرائے جبکہ اپنی بیوی کو بذات خود کسی قسم  کاکوئی جملہ نہیں کہا ، نہ میسج پر نہ کال کرکے ، نہ کسی اور طریقہ سے (۳) بعد ازاں اس کو جٹھانی نے سمجھانے کی کوشش کی کہ آپ اپنی بیٹی کی زندگی خراب نہ کرو ، کوئی گنجائش ہے تو بتاؤ ؟  (اس کی ایک بیٹی ہے) تو آگے سے اس نے کہا کسی قسم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

شوہر کا بیان : میں نے یہ الفاظ ’’میں نے تمہیں فارغ کردیا‘‘ پہلے بیوی کو کہے تھے ،پھر اس کی والدہ کو فون پر کہے تھے، اور میری نیت طلاق کی ہی تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ايك بائنہ طلاق واقع ہوچکی ہے، جس سے سابقہ نکاح ختم ہوگیا ہے، لہذا اگر میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو گواہوں کی موجودگی میں نئے حق مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرکے رہ سکتے ہیں۔

توجیہ: یہ جملہ کہ ’’میں نے تمہیں فارغ کردیا‘‘ کنایات طلاق کی تیسری قسم میں سے ہے، اور شوہر نے یہ جملہ بولتے وقت چونکہ طلاق کی نیت کی تھی، لہذا اس سے ایک بائنہ طلاق واقع ہوگئی ہے، اس کے بعد شوہر نے بیوی کی والدہ کو فون کرکے جو کہا کہ ’’میں نے آپ کی بیٹی کو فارغ کرکے بھیجا ہے‘‘ اسی طرح یہی الفاظ شوہر نے اپنی والدہ کے سامنے بھی دہرائے، تو ان سے مزید طلاق واقع نہیں ہوئی، اولا تو اس لئے کہ یہ خبر کے جملے ہیں، یعنی شوہر ان جملوں میں سابقہ دی ہوئی طلاق کی خبر دے رہا ہے، اور طلاق کی خبر دینے سے مزید طلاق واقع نہیں ہوتی، دوسرے اس لئے کہ شوہر نے بعد میں بھی کنائی جملے ہی استعمال کئے ہیں اس لئے ان سے ’’لايلحق البائن البائن‘‘ کے تحت مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

درمختار مع الرد(516/4، رشیدیہ) میں ہے:"(ف) الکنایات (لا تطلق بها) قضاء (الا بنية او دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق او الغضب.قوله : (قضاء) قيد به، لانه لايقع ديانة بدون النية، ولو وجدت دلالة الحال فوقوعه بواحد من النية او سلالة الحال انما هو في القضاء فقط كما هو صريح البحر وغیره.”محیط برہانی (393/4) میں ہے:"وفي الواقعات : اذاطلق امراته ثم قال لها قد طلقتك ، او قال بالفارسية : طلاق دادم ترا، دادم ترا طلاق ، يقع تطليقة ثانية ، ولو قال قدكنت طلقتك، او قال بالفارسية :طلاق داده ام ترا، لا يقع شيئ بالثاني ،”درمختار مع الرد (531/4، رشیدیہ) میں ہے:"(لا) يلحق البائن (البائن)”احسن الفتاوی (188/5) میں ہے:"تو فارغ ہے: سوال: کوئی شخص بیوی کو کہے ’’تو فارغ ہے‘‘ یہ کونسا کنایہ ہے …. … …الخ۔ الجواب باسم ملہم الصواب: بندہ کاخیال بھی یہی ہے ٍ۱کہ عرف میں یہ لفظ صرف جواب ہی کے لئےمستعمل ہے، اس لئے عندالقرینہ بلانیت بھی اس سے طلاق بائن واقع ہو جائے گی، فقط واللہ تعالی اعلم،”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved