• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’آپ میری طرف سے فارغ ہیں‘‘ کہنے کا حکم

استفتاء

میرے شوہر نے کہا ’’تم اپنی بہن سے بات کروگی تو فارغ ہو میری طرف سے ‘‘اور یہ بات  مذاق یا غصے میں نہیں کی بس سنجیدگی سے کی ہے۔

خاوند کا بیان:

نارمل ماحول تھا۔ کوئی لڑائی جھگڑے یا طلاق کی بات نہیں ہو رہی تھی۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا اگر آپ نے اپنی بہن سے بات کی تو آپ میری طرف سے فارغ ہیں۔ اس جملے سے میری طلاق کی ہرگز نیت نہیں تھی۔

بیوی کا بیان:

چند دن پہلے میرے خاوند میری باجی سے محلے شکوے کر رہے تھے۔ کہ آپ ہمیں بلاتی نہیں۔ بعد میں میں اپنی باجی سے جب مل کر آئی تو میرے خاوند مجھ سے پوچھنے لگے کہ باجی میرے بارے میں کیا کہ رہی تھیں۔ میں نے کہا وہ کہہ رہی تھیں کہ تمہارا خاوند صحیح کہ رہا تھا۔  راس ساری بات کے بعد مجھے میرے خاوند نے کہا کہ اگر اپنی بہن سے بات کرو گی تو فارغ ہو میری طرف سے۔ میں یہ بات سن کر رونا شروع ہوگی تو میرے خاوند کہنے لگے کیا ہوا ہے رو کیوں رہی ہو تو میں نے اُن سے کہا آپ کو پتا بھی ہے کہ آپ نے کیا کہا ہے یہ تو بڑے سخت الفاظ ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر واقعتاً شوہر کی نیت طلاق کی نہ تھی اور وہ بیوی کے سامنے طلاق کی نیت نہ ہونے پر قسم بھی دے دے مثلاً یوں کہہ دے کہ اللہ کی قسم میں نے اپنے اس جملے سے کہ ’’ تم اپنی بہن سے بات کروگی تو فارغ ہو میری طرف سے‘‘ طلاق کی نیت نہیں کی تھی۔ تو بیوی کے بہن سے بات کرنے کی صورت میں کوئی طلاق واقع نہ ہوگی اور اگر طلاق کی نیت نہ ہونے پر قسم دینے سے انکار کرے تو بیوی  بہن سے بات کرنے پر اپنے حق میں ایک بائنہ طلاق شمار کرے گی جس کے بعد دوبارہ اکٹھے رہنے کے لیے کم از کم دو گواہوں کی موجودگی، نیا مہر مقرر کرکے دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہوگا۔

یاد رہے کہ اگر شوہر نے طلاق کی نیت سے یہ جملہ کہا تھا لیکن وہ غلط بیانی سے بیوی کے سامنے طلاق کی نیت نہ ہونے پر قسم دے گا تو ہمارے اس فتوے کی وجہ سے بیوی حلال نہ ہوگی بلکہ بیوی کے بہن سے بات کرتے ہی بائنہ طلاق واقع ہوجائے گی جس کے بعد شوہر کا بیوی کو تجدید نکاح کے بغیر  رکھنا ناجائز اور حرام ہوگا۔ اس لیے احتیاط اسی میں ہے کہ بیوی جب بہن سے بات کر لے تو میاں بیوی تجدید نکاح کر لیں۔

توجیہ: یہ الفاظ کنایات طلاق کی تیسری قسم میں سے ہیں جن سے غصہ  یا مذاکرہ طلاق کی حالت میں شوہر کی نیت کے بغیر بھی بیوی کے حق میں بائنہ طلاق واقع ہوجاتی ہے لیکن مذکورہ صورت  میں نہ غصہ تھا اور نہ مذاکرہ طلاق کی صورت تھی اس لیے طلاق کا واقع ہونا شوہر کی نیت پر موقوف ہوگا اور چونکہ شوہر نے طلاق کی نیت نہیں کی تھی اس لیے اس جملے سے طلاق واقع نہ ہوگی لیکن طلاق کی نیت نہ ہونے پر بیوی کے سامنے قسم دینی ہوگی۔

در مختار مع رد المحتار (4/520) میں ہے:ففي حالة الرضا اي: غير الغضب و المذاکرة (تتوقف الاقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال، و القول له بيمينه في عدم النية، ويکفى تحليفها له في منزله، فان ابي رفعته للحاکم، فان نکل فرق بينهما.قوله: (للاحتمال) لما ذکرنا من أن کل واحد من الالفاظ يحتمل الطلاق وغيره و الحال لا تدل على احدهما فيسأل عن نيته و يصدق فى ذلک قضاء.قوله: (بيمينه) فاليمين لازمة له سواء ادعت الطلاق ام لاحقا لله تعاليٰ.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved