• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ایکسیڈنٹ کی صورت میں ڈرائیور پر کفارہ

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں اپنی گاڑ ی میں جا رہا تھا کہ اچانک ایک سکوٹر سامنے آگیا، اور حادثہ ہو گیا۔ اس سکوٹر پر میاں بیوی سوار تھے، اور وہ دونوں اس حادثے کے نتیجے میں جاں بحق ہو گئے۔ موقع پر موجود لوگوں نے بھی اس بات کو تسلیم کیا کہ غلطی میری نہیں، بلکہ سکوٹر سوار کی تھی۔ مقتولین کے ورثاء نے بوجہ ان کی غلطی معاملہ ختم کر دیا۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ اس کا کیا حکم ہے، آیا مجھ پر کفارہ آئے گا یا نہیں؟ اور اگر کفارہ آئے گا تو ایک ہو گا یا دو؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر آپ ٹریفک قوانین کی مکمل پاسداری کے ساتھ چل رہے تھے یعنی مقررہ رفتار سے نظم کے ساتھ اپنی لین کی پابندی کرتے ہوئے مکمل بیدار مغزی کے ساتھ گاڑی چلا رہے تھے پھر اچانک اسکوٹر سامنے آگیا اور آپ کے بریک لگانے کے باوجود گاڑی اسکوٹر سے ٹکرا گئی تو ایسی صورت میں چونکہ آپ کی طرف سے کوئی کوتاہی نہیں پائی گئی اس لیے آپ ضامن نہ ہوں گے۔ چنانچہ آپ پر نہ کوئی دیت ہے اور نہ ہی  کوئی کفارہ ہے۔

لیکن اگر آپ کی طرف سے مذکورہ بالا باتوں میں سے کسی ایک بات میں بھی کمی، یا پرواہی پائی گئی تو ایسی صورت میں آپ قصور وار ہوں گے اور یہ قتل، قتل خطا کے درجے میں ہو گا، البتہ مذکورہ صورت میں چونکہ ورثاء نے معاف کر دیا ہے اس لیے مقتول میاں بیوی کی دیتیں تو آپ سے ساقط ہو گئیں تاہم کفارے میں تداخل کی وجہ سے ایک ہی کفارہ لازم ہو گا۔ اور کفارہ قتل یہ ہے کہ لگاتار ساٹھ روزے رکھے جائیں۔

بحوث في قضایا فقهیة المعاصرة (1/315):

إذا ساق إنسان سيارة في شارع عام، ملتزماً السرعة المقررة ومتبعاً حط السير حسب النظام، ومتبصراً في سوقه حسب قواعد المرور فقفز رجل أمامه فجأة، فصدمته السيارة رغم قيام السائق بما وجب عليه من الفرملة ونحوها، فإن اللجنة الدائمة للبحوث والإفتاء في المملكة العربية السعودية أبدت في هذه الصورة احتمالات مختلفة ولم تبت فيها بشيء …. والذي يظهر لي في هذه الصورة –والله سبحانه أعلم- أن الرجل الذي قفز أمام السيارة إن قفز بضرب … بحيث لا يمكن للسيارة في سيرها المعتاد في مثل ذلك المكان أن تتوقف بالفرملة، وكان قفزه فجأة لا يتوقع سبقاً لدى سائق متبصر محتاط، فإن هلاكه أو ضرره في مثل هذه الصورة لا ينسب إلى سائق السيارة، ولا يقال: إنه باشر الإتلاف فلا يضمن السائق، ولا يصير القافز مسبباً لهلاك نفسه وذلك لوجوه … إلخ

چند اہم عصری مسائل (2/284) میں ہے:

”سوال: (86): کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں؟

***کے دو لڑکے اور ایک لڑکا (تینوں بالغ) بڑا لڑکا عمر تقریبا 25 سال (جس کی شادی ابھی نہیں ہوئی تھی) گذشتہ 20 مئی 2012ء کو اپنی کار سے جے پور سے دلی جا رہا تھا، اور علی الصبح جے پور شہر سے تقریباً 70 کلو میٹر کی دوری پر اس کی کار آگے چلتے ہوئے ٹرک سے ٹکرا گئی اور لڑکے کی موقع پر ہی موت ہو گئی، انا للہ وانا الیہ راجعون، کفن دفن وجنازہ دوسرے دن جے پور میں کی گئی۔

***نے جے پور شہر میں ریاست راجھستان کے ذریعہ قائم شدہ ایکسیڈنٹ کے معاملات کی عدالت میں دو ماہ بعد ٹرک ڈرائیور کے خلاف مقدمہ دائر کیا، عدالت نے ماہ جنوری میں ٹرک کے انشورنس کمپنی سے ہر جانہ کی کچھ رقم والدین کو دلائی ہے، یہ عبوری معاوضہ ہے اور امید ہے کہ آگے اور بھی معاوضہ کی رقم دلائی جائے گی۔

1۔ کیا والدین اس رقم کا مصرف اپنی ذات، بچوں کی تعلیم اور ان کی شادی کرانے میں لے سکتے ہیں؟ (والدین پر زکاۃ فرض ہے)۔

2۔ اس رقم میں سے کسی مسجد کی تعمیر یا مرمت میں صرف کیا جا سکتا ہے؟

3۔ اس رقم میں سے کسی غریب کو صدقہ کے مد میں دیا جا سکتا ہے؟

4۔ اس رقم پر اور آگے ملنے والی رقم پر کیا زکاۃ فرض ہو گی؟

5۔ اس رقم کو یا آگے ملنے والی رقم کا بہتر مصرف کس طرح کیا جا سکتا ہے؟

الجواب: وباللہ التوفیق: حادثے کی جو صورت استفتاء میں بیان کی گئی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ ٹرک آگے چل رہا تھا اور زید کا لڑکا اپنی کار اس کے پیچھے چلا رہا تھا، پھر اچانک اس کی کار آگے چل رہے ٹرک سے ٹکرا گئی، جس کے نتیجے میں یہ حادثہ پیش آیا، اگر واقعتاً یہی صورت تھی، تو اگر ٹرک ڈرائیور کی کسی غلطی یا لاپرواہی یا ضابطہ (ٹريفک رول) کی خلاف ورزی کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا، تو یہ قتل خطاء کے درجے میں ہو گا، جس میں قاتل (ڈرائیور) کے عاقلہ پر دیت لازم ہوتی ہے۔ اور غیر اسلامی ممالک میں انشورنس کمپنی کو ” عاقلہ ” کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ اس لیے اس سے جو کچھ رقم ملی یا آگے ملے گی سب بہ حکم دیت ہو گی اور اس میں وراثت جاری ہو گی۔

صورت مسئولہ میں پوری رقم کا ایک تہائی ماں کو اور باقی باپ (زید) کو ملے گی، باپ یا ماں کو اختیار ہے اپنے حصے کی رقم کو جہاں چاہیں خرچ کریں، ان کے پاس رہے گی، تو زکوٰۃ بھی واجب ہو گی۔ لیکن ٹرک ڈرائیور اگر صحیح طریقے پر اپنی گاڑی چلا رہا تھا، اس کی طرف سے کسی طرح کی کوئی کمی نہیں پائی گئی، زید کے لڑکے کی کار اچانک کسی وجہ سے ٹرک سے ٹکرا گئی، تو ایسی صورت میں چونکہ ٹرک ڈرائیور کا کوئی قصور نہیں ہے، اس لیے اس کے خلاف مقدمہ کرنا یا ہرجانہ لینا شرعاً جائز نہیں ہے۔

يستفاد مما في الدر: ومن ضرب دابة عليها راكب أو نخسها بعود بلا إذن الراكب، فنفحت أو ضربت بيدها شخصاً آخر، غير الطاعن، أو نفرت فصدمته وقتله ضمن هو، أي الناخس، لا الراكب قال الشامي لأنه غير متعد فترجح جانب الناخس في التغريم للتعدي.

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مفتیان دار العلوم دیوبند

مجلہ مادہ: 94 میں ہے:

المباشر ضامن وإن لم يتعمد.

اور  مجلہ مادہ:  (1/251) میں ہے:

لأن الراكب مباشر للقتل فيما وطأت دابته.

بدائع الصنائع (6/416):

ومن أتلف شخصين بضربة واحدة يجب عليه ضمان كل واحد منهما، كما لو أفرد كل واحد منهما بالضرب كما في الكبيرين.

فتاویٰ شامی (10/ 163-286) میں ہے:

  1. ضمن الراكب في طريق العامة ما وطئت دابته… أي من نفس أو مال. در منتقى، فتجب الدية عليه وعلى عاقلته.

2.أو كان على دابة فأوطأت إنسانا، فقتله مثل النائم لكونه قتيلاً للمعصوم من غير قصد.

3.وموجبه: أي موجب هذه النوع من الفعل هو الخطأ وما جرى مجراه، الكفارة والدية على العاقلة، والإثم دون إثم القتل إذ الكفارة تؤذن بالإثم لترك العزيمة. (10/123).

  1. إن الفعل يتعدد بعدد أثره كما إذا رمى فأصاب شخصاً ونفذ منه إلى آخر، فقتله، فإنه يجب عليه ديتان، إن كانا خطأ. (10/259)
  2. والكفارة جزاء المباشرة. اتفاقي. (10/384).
  3. واعلم أن توبة القاتل لا تكون بالاستغفار والندامة فقط، بل يتوقف على إرضاء المقتول… فإن عفوا عنه كفته التوبة. (10/192).
  4. والحاصل: أنا لم نقل بالتداخل في الحكم في العبادات لما يلزم عليه من الأمر الشنيع وهو ترك العبادة المطلوب تكثيرها مع قيام سببها، فجعلنا الكل سبباً واحداً لدفع ذلك، لأنه أليق بها، أما العقوبات فإن مبناها على الدرء والعفو، فلا يلزم من تركها مع قيام سببها الأمر الشنيع بل يحصل المقصود منها في الدنيا وهو الزجر بعقوبة واحدة مع جواز عفو المولى تعالى في الآخرة وإن تعدد السبب.

بحر رائق، باب الجنایات: (13):

لأن الغالب في هذه الكفارة معنى العبادة … التداخل باتحاد المجلس كما في آية السجدة. فقط و الله تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved