• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

عدت گزرنے کے بعد ’’میں تو تمہیں طلاق دے چکا ہوں‘‘ کہنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے آپ حضرات سے طلاق کا مسئلہ دریافت کیا تھا، جس کے بارے میں آپ حضرات نے فتوی دیا کہ دو بائنہ طلاقیں واقع ہو گئی ہیں، اور اکٹھے رہنے کے لیے نیا نکاح کرنا پڑے گا، فتوی کا نمبر 23/74ہے، دوبارہ نکاح کرنے کے بارے میں شوہر سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے فون پر کہا کہ ’’میں تو تمہیں طلاق دے چکا ہوں‘‘  (1) آیا مذکورہ الفاظ سے تیسری طلاق واقع ہو گئی ہے یا نہیں؟ جبکہ پہلی طلاق کے بعد شوہر کے مذکورہ الفاظ بولنے سے پہلے  4 یا 5ماہواریاں گزر چکی ہیں۔ (2)  میرے لیے رشتے آ رہے ہیں میں کہیں اور نکاح کر سکتی ہوں یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

-1مذکورہ صورت میں شوہر کے ان الفاظ سے کہ ’’میں تو تمہیں طلاق دے چکا ہوں‘‘ کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ یہ الفاظ سابقہ طلاق کی خبر ہیں، نیز شوہر نے یہ الفاظ عدت گزرنے کے بعد کہے ہیں، اور طلاق واقع ہونے کے لیے نکاح یا عدت کا ہونا ضروری ہے۔

-2 چونکہ سابقہ دو بائنہ طلاقوں کی عدت گزر چکی ہے لہذا آپ کہیں اور بھی نکاح کر سکتی ہیں۔

فتاوی بزازیہ علی ہامش الہندیہ  (4/180) میں ہے:

طلقها ثم قال: طلقتك أو قال: طلاق دادم ترا يقع اخرى، ولو قال: طلاق داده ام او كنت طلقتك لا يقع اخرى لانه اخبار.

درمختار مع ردالمحتار (419/4) میں ہے:

(ومحله المنكوحة)

 (قوله ومحله المنكوحة) أي ولو معتدة عن طلاق رجعي أو بائن غير ثلاث في حرة.

بدائع الصنائع (295/3) میں ہے:

فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد ولا يصح ظهاره، وإيلاؤه ولا يجري اللعان بينهما ولا يجري التوارث ولا يحرم حرمة غليظة حتى يجوز له نكاحها من غير أن تتزوج بزوج آخر لأن ما دون الثلاثة وإن كان بائنا فإنه يوجب زوال الملك لا زوال حل المحلية.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved