• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

   ’’اگر میں نے آپ (یعنی اپنے والد) کو قتل نہیں کیا تو میری بیوی کو طلاق‘‘کہنے کاحکم۔

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام  مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ میں مسمی عامر (سکنہ سکارکوئی گلگت) نے  اپنے والد سے میراث  کی خاطر جھگڑے کے موقع پر طلاق کے الفاظ کہے تھے اور کہا تھا کہ ’’اگر میں نے آپ (یعنی اپنے والد) کو قتل نہیں کیا تو میری بیوی کو طلاق‘‘۔

اس کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد پھر میں نے دوبارہ گھریلو جھگڑے  کے دوران اپنی بیوی کو طلاق دی، جس کے الفاظ صرف اتنے تھے کہ ’’میں آپ کو طلاق دیتا ہوں‘‘۔ تاہم اس طلاق سے میرا مقصد اپنی بیوی کو تنبیہ کرنا تھا۔ جب سسرال والوں کو معلوم ہوا تو وہ اپنی بیٹی کو اپنے گھر لے گئے۔   پھر بندہ نے تین دن کے اندر ہی بذریعہ فون اپنی بیوی سے رجوع کر لیا تھا، جس سے میرا ہم زلف مسمی ریاض محمد بھی مطلع ہے۔ تا حال سسرال والوں نے میری بیوی کو روکا ہوا ہے۔ اب میرے والد طبعی موت سےانتقال فرما گئے ہیں۔

ایسی صورت میں کتنی طلاقیں ہوئی۔ کیا میں اپنی بیوی کو واپس اپنے نکاح میں رکھ سکتا ہوں؟

وضاحت مطلوب ہے: (1) آپ کے والد کب فوت ہوئے ہیں؟  (2) بیوی کو ماہواری آرہی ہے یا حمل ہے؟

جواب وضاحت: (1) تقریباً ایک مہینہ ہو گیا ہے۔ (2)  حمل نہیں ، ہر ماہ حیض آرہا ہے۔

سائل:  عامر/ ساکن سکار کوئی گلگت                                            بواسطہ: عبید الرحمن

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں دو طلاقیں واقع ہو گئی ہیں۔ ایک رجعی طلاق   تو گھریلو جھگڑے کے دوران آپ کے ان الفاظ  سےکہ ’’میں آپ کو طلاق دیتا ہوں‘‘واقع ہوئی تھی، جس کےبعدآپ رجوع بھی کر چکے ہیں۔ اور دوسری طلاق آپ کے والد کے فوت  ہونے پر شرط پوری نہ ہونے کی وجہ سے  واقع ہو گئی ہے۔  لیکن چونکہ یہ طلاق بھی  رجعی ہے اور عدت بھی باقی ہے اس لیے آپ رجوع کر سکتے ہیں۔

نوٹ: چونکہ مذکورہ صورت میں دو طلاقیں ہو چکی ہیں اس لیے شوہر کے پاس آئندہ کے لیے صرف ایک طلاق کا حق باقی ہے۔ اگر وہ مزید طلاق دے دیتا ہے تو اس کی بیوی اس پر حرام ہو جائے گی۔

فتاویٰ شامی (5/572) میں ہے:

حلف (ليأتينه) فهو أن يأتي منزله أو حانوته لقيه أم لا (فلو لم يأته حتى مات) أحدهما (حنث في آخر حياته) وكذا كل يمين مطلقة، أما المؤقتة فيعتبر آخرها، فان مات قبل مضيه فلا حنث.  قال العلامة الشامي رحمه الله تحت قوله ( وكذا كل يمين مطلقة ) أي لا خصوصية للإتيان بل كل فعل حلف أن يفعله في المستقبل وأطلقه ولم يقيده بوقت لم يحنث حتى يقع اليأس عن البر مثل ليضربن زيدا أو ليعطين فلانة أو ليطلقن زوجته وتحقق اليأس عن البر يكون بفوت أحدهما ولذا قال في غاية البيان وأصل هذا أن الحالف في اليمين المطلقة لا يحنث ما دام الحالف والمحلوف عليه قائمين لتصور البر فإذا فات أحدهما فإنه يحنث اهـ بحر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved