• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’اگر میں نے ان کبوتروں کو آگ نہ لگائی تو میری بیوی کو تین طلاق‘‘کہنے کا حکم

استفتاء

*** کے پاس کچھ کبوتر تھے ایک دن غصے میں آکر اس نےکہا کہ اگر میں نے ان کبوتروں کو آگ نہ لگائی تو میری بیوی کو تین طلاق ہے اب وہ بہت پریشان ہے کہ اگر شریعت میں ایسی کوئی صورت ہو کہ میری بیوی بھی طلاق سے بچ جائے اور کبوتر بھی جلنے سے بچ جائیں۔ یہاں کچھ حضرات نے یہ رائے دی ہے کہ کم از کم تین کبوتروں کی دم کو آگ لگا کر پھر بجھا دی جائے تو اس سے یہ حانث نہیں ہوگا دوسری رائے یہ ہے کہ کبوتروں کو ذبح کرکے پھر آگ لگا دی جائے_ مفتی صاحب ان حضرات کی رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے شریعت کی روشنی میں اس مسئلے کا کوئی حل ہے کہ جس سے طلاق بھی واقع نہ ہو اور کبوتروں کی جان بھی بچ جائے _

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جانوروں (کبوتروں) کو آگ لگانے کا حقیقی معنیٰ  شرعاً وعادۃً دونوں طرح مہجور ہے،عادۃً تو اس طرح کہ کوئی بھی شخص جانور کو آگ لگانے سے حقیقتاً آگ لگانا مراد نہیں لیتا اور شرعاً بھی مہجو رہے کیونکہ جانور کو آگ لگانا شرعاً ممنوع ہےاور مجازی معنیٰ متعارف ہے یعنی اپنی ملک سے نکال دینا لہٰذا مذکورہ صورت میں طلاق سے بچنے کی یہ صورت ہے کہ **** ان کبوتروں کو اپنی ملک سے نکال دے یعنی یا کسی کو بیچ دے یا ہدیہ کردے، البتہ اگر ا س نے حقیقی معنیٰ ہی کی نیت کی تھی تو طلاق سے بچنے کے کوئی جائز صورت نہیں کیونکہ جانور کو آگ لگانا جائز نہیں اور آگ لگائے بغیر طلاق سے بچنا ممکن نہیں۔

فرہنگ ***(ط-*** بک کارنر) (1/193) میں ہے:

آگ لگانا۔ ہ۔ فعل متعدی (1) آگ دینا، کسی چیز میں آگ ڈالنا، جلانا، پھونکنا، بالنا

(۹) چھوڑنا۔ ترک کرنا۔  چھوڑ دینا۔ تیاگنا۔ القط کردینا۔ قطع تعلق کرلینا۔ لعنت بھیجنا۔ برطرف کرنا۔ موقوف کرنا۔معزول کرنا۔ نکال دینا

فیروز اللغات(26) میں ہے:

آگ لگانا (۱) آگ دینا۔ جلانا۔ پھونکنا۔ بالنا (۱۱) ترک کرنا (۱۲) ضائع کرنا۔ غارت کرنا۔ تباہ کرنا

آگ لگاؤں۔ نفرت ظاہر کرنے کے لیے۔ کیا کروں چولہے میں ڈالوں۔

آگ لگ جائے۔ (۱) (ایک کوسنا) جل جائے۔ اجڑ جائے۔ غارت ہو۔ ملیا میٹ ہو۔ ناپید ہو

اردو لغت تاریخی اصول پر( مطبوعہ اردو بورڈ پاکستان) میں ’’آگ لگانا‘‘ کے یہ معنیٰ ہیں:

آگ لَگانا

کسی چیز کو آگ دینا ، جلانا.چھوڑ دینا، ترک کرنا، القط کرنا،تلف کرنا، لٹانا، برباد کرنا

نور الانوار(107) میں ہے:

وإذا كانت الحقيقة متعذرة او مهجورة صير الى المجاز كما اذا حلف لا ياكل من هذه النخلة مثال للمتعذرة اذ اكل النخلة نفسها يتعذر فيراد المجاز وهو ثمرها اولا يضع قدمه فى دار فلان مثال للمهجورة والمهجور شرعا كالمهجور عادة

ايضا: (والحقيقة تترك) بدلالة معنى يرجع الى المتكلم وقصده فيحمل على الاخص مجازا وان كان اللفظ دالا على العموم بحقيقته كما في يمين الفور.

ردالمحتار(5/561) میں ہے:

(قوله حلف لا يأكل من ‌هذه ‌النخلة إلخ) الأصل في جنس هذه المسائل أن العمل بالحقيقة عند الإمكان، فإن تعذر أو وجد عرف بخلاف الحقيقة تركت، فإذا عقد يمينه على ما هو مأكول بعينه انصرفت إلى العين لإمكان العمل بالحقيقة، وإذا عقدها على ما ليس مأكولا بعينه أو هو مأكول إلا أنه لا تؤكل عينه عادة انصرفت إلى ما يتخذ منه مجازا لأن العمل بالحقيقة غير ممكن

الاختیار لتعلیل المختار(4/55) میں ہے:

‌اليمين ‌بالله ‌تعالى ثلاثة …………. ومنعقدة: وهي الحلف على أمر في المستقبل ليفعله أو يتركه

بدائع الصنائع(3/38) میں ہے:

ولو حلف لا يدخل بيتا فدخل مسجدا أو بيعة أو كنيسة أو بيت نار أو دخل الكعبة أو حماما أو دهليزا أو ظلة باب دار لا يحنث؛ لأن هذه الأشياء لا تسمى بيتا على الإطلاق عرفا وعادة وإن سمى الله – عز وجل – الكعبة بيتا في كتابه في قوله تعالى – {إن أول بيت وضع للناس للذي ببكة} [آل عمران: 96] وسمى المساجد بيوتا حيث قال تعالى {في بيوت أذن الله أن ترفع ويذكر فيها اسمه} [النور: 36] ؛ لأن مبنى ‌الأيمان ‌على ‌العرف والعادة لا على نفس إطلاق الاسم

الاختیار لتعلیل المختار(4/59) میں ہے:

  قال: (حلف لا يتكلم فقرأ القرآن أو سبح أو هلل لم يحنث) لأن مبنى ‌الأيمان ‌على ‌العرف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved