• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

اگرشوہر حالت صحت میں بیوی  کو بائنہ  طلاق دیدے تو بیوی کو وراثت  میں سے حصہ  ملے گا یا نہیں ؟

استفتاء

مفتی صاحب آپ اس مسئلہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ میرے والد محمد سلیم جو کہ مورخہ29/03/21 ءبروز پیر کو رضائے الہی سے وفات پا گئے تھے ،انہوں نےدو شادیاں کر رکھی تھیں، ان کی پہلی بیوی  کا نام روبینہ اور دوسری بیوی  کا نام آمنہ خان ہے، محمدسلیم مرحوم کی پہلی بیوی سے تین بچے ہیں جن میں دو بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہے اور دوسری بیوی سے دو بچے ہیں جن میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی شامل ہے دونوں بیویوں سے ٹوٹل پانچ بچے ہیں محمدسلیم مرحوم نے اپنی دوسری بیوی کو ایک طلاق نامہ دے دیا تھا جو کہ اس نے بتایا کہ وہ اس نے پھاڑ دیا تھا اور دوسرا طلاق نامہ ان کے بریف کیس سے ملا جس کا ذکر انہوں نے اپنے بیوی بچوں اور بھائی محمد عظیم ولد محمد لطیف سے کیا تھااور طلاق کا ذکر اپنے بڑے بیٹے محمد احسن اور اپنی بڑی بیٹی رابعہ اور اپنے ملازم آصف امین ولد محمد امین سےبھی کیا تھا کہ میں نے آمنہ خان یعنی دوسری بیوی کودو طلاقیں دے دی ہیں اور اسے فارغ کردیا ہے   مرحوم نے اپنی صحت مندی میں یہ طلاقیں  دی ہیں  جناب اس حساب سے اب ان کی بیوی آمنہ خان کو کتنی طلاقیں ہوئی ہیں؟ اور ان کو مرحوم کی جائیدادمیں سے حصہ ملے گا یا نہیں  ؟

سائل: احسن سلیم ولد محمد سلیم مرحوم

"میں حلفاً اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ لکھی گئی تحریر درست ہے اور میرے باس محمد سلیم ولد محمد لطیف مرحوم نے مجھ سے کہا تھا کہ میں نے اپنی دوسری بیوی آمنہ خان کو دو طلاقیں دی ہیں”            (ملازم آصف امین

"میں حلفاً  اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ لکھی گئی تحریر درست ہے اور میرے والد صاحب نے مجھے کہا تھا کہ میں نے اپنی دوسری بیوی آمنہ خان کو دو طلاقیں دی ہیں”

(احسن سلیم بیٹا

"میں حلفاً اس بات کا اقرار کرتی ہوں کہ لکھی گئی تحریر درست ہے اور میرے والد صاحب نے مجھے کہا تھا کہ میں نے اپنی دوسری بیوی آمنہ خان کو دو طلاقیں  دی ہیں”(رابعہ کنول بیٹی

دوسری  بیوی آمنہ خان  کار ابطہ نمبر:

نوٹ :دوسری بیوی  اپنا مؤقف  دینے سے  انکار کر رہی ہے  اور اس کا کہنا ہے  کہ  جو پو  چھنا ہےسائل  سے  پو چھو   ہمیں دو بارہ کا ل نہ کرو  ۔(رابطہ کنندہ،محمد سلیمان،از دارالافتاء )

طلاق نامہ کی  عبارت:

"۔۔۔۔۔اب فریق  اول بطور  خاوند  مسماۃ  مذکورہ آمنہ خان   کے مطالبہ پر بقائمی ہوش وحواس  خمسہ بلاجبر و اکراہ  غیرے اپنی آزادانہ مرضی سے  طلاق اول دے کر  اب طلاق  دوئم  یعنی طلاق دوئم  دیتا ہوں ،  اور ہمیشہ  کے لیے  اپنی زوجیت سے علیحدہ کر تاہوں ۔ لہٰذا  یہ تحریر   روبرو گواہان حاشیہ تحریر  کردی  ہے  تاکہ سنَد   رہے  اور بوقت ضرورت  کام آوے ۔مؤرخہ 30/09/2020ء”

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں طلاق نامے کی رو سے دوبائنہ طلاقیں واقع ہوگئی ہیں جن کی وجہ سے نکاح ختم ہوگیا ہے اورچونکہ شوہر کی وفات سےپہلےعدت بھی گذرچکی ہے اس لئے محمدسلیم مرحوم کی بیوی آمنہ خان کو اس کی وراثت میں سے حصہ نہیں ملے گا۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں طلاق نامے کے الفاظ کہ” طلاق اول دے کر اب طلاق دوئم یعنی طلاق دوئم دیتا ہوں "سے دو    رجعی طلاقیں واقع ہوئیں  کیونکہ لفظ” یعنی طلاق دوئم "پہلے "طلاق دوئم” کی تفسیر ہے پھر اس کے بعدیہ جملہ کہ "ہمیشہ کے لئے اپنی زوجیت سے علیحدہ کرتا ہوں "چونکہ کنایات ِطلاق میں سے ہے اور صریح الفاظ کے بعد کنایہ الفاظ استعمال کرنے سے عدد میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ صرف وصف میں اضافہ ہوتا ہے یعنی رجعی طلاق  بائنہ بن جاتی ہے لہذا مذکورہ جملہ سے سابقہ رجعی طلاقیں بائنہ بن گئیں پھر چونکہ شوہر نے حالتِ صحت میں دو بائنہ طلاقیں دی ہیں اور شوہر کی وفات سے پہلے عدت بھی گذر گئی ہے،  لہٰذا           بیوی کوشوہرکی  وراثت میں سے حصہ نہیں ملے گا۔

البحر الرائق(227/4) میں ہے:

قيدنا بكونه بائنا لأنه لو طلقها رجعيا  فعدتها عدة الوفاة سواء طلقها في الصحة أو في المرض بطريق انتقال عدة الطلاق إلى عدة الوفاة وترث منه وقيدنا بكونه في مرض موته لأنه لو طلقها بائنا في

صحته لم تنتقل ولا ترث………….وقد استفيد بما ذكرناه أن وضع المسألة فيما إذا لم تحض ثلاثا قبل موته أما إذا حاضت ثلاثا قبل موته فقد انقضت عدتها ولم تدخل تحت المسألة لأنه لا ميراث لها إلا إذا مات قبل انقضاء العدة.

ہندیہ (530/1)میں ہے:

إذا طلق إمرأته ثم مات فإن كان الطلاق رجعيا انتقلت عدتها إلي الوفاة سواء طلقها في حالة المرض أو الصحة وانهدمت عدة الطلاق وإن كان بائنا أوثلاثا فإن لم ترث بأن طلقها في حالة الصحة لاتنتقل عدتها وإن ورثت بأن طلقها في حالة المرض ثم مات قبل أن تنقضي العدة فورثت اعتدت بأربعة أشهر وعشرة أيام فيها ثلاث حيض

امدادالمفتین(512)میں ایک سوال کے جواب میں ہے:

۔۔۔ فى الخلاصة وفى الفتاوى لو قال لامرأته أنت طالق ثم قال للناس زن من بر من حرام است و عنى به الأول أو لا نية له فقد جعل الرجعي بائنا و إن عنى به الابتداء فهي طالق آخر بائن. (خلاصة الفتاوی صفحه 82 جلد 2)……..         

اس سے معلوم ہوا  کہ الفاظ کنایہ اگر مطلقہ رجعی کے حق  میں بولے جائیں توطلاق جدیدکی نیت کرنےسےطلاق جدیدواقع ہو جاتی ہے اورکچھ نیت نہ کرنےسےپہلی طلاق بائنہ ہوجاتی ہے۔۔۔۔۔الخ

امدادالفتاویٰ جدیدمطول(183/5)میں ہے:

"سوال :ایک شخص نے دوسرے سے کہا ایک طلاق لکھ دو اس نے بجائے صریح کے کنایہ لکھ دیا آمر نے بغیر پڑھے یا پڑھائے دستخط کر دیئے تو کیا حکم ہے اور دستخط کرنا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔الخ

الجواب :اگر مضمون کی اطلاع پردستخط کئے ہیں تو معتبر ہے ورنہ معتبر نہیں قواعد سے یہی حکم معلوم ہوتا ہے اور دستخط کرنا اصطلاحاً اس مضمون کو اپنی طرف منسوب کرنا ہے۔۔۔۔۔الخ”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved