• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

” اگر تم اپنے باپ کے ساتھ گئی تو یہ رشتہ ختم ہے” کہنے سے طلاق کا حکم

استفتاء

میں میرڈ(شادی شدہ )  ہوں۔ گھر میں**** کی صبح کچھ ناچاقی پیش آئی ، میں اپنے سسرال پنڈی میں تھی اور میں دو ماہ کی حاملہ تھی ۔ میرے والد صاحب مجھے اپنے ساتھ واپس ملتان  لےجانے  کے لیے آئے ہوئےتھے۔  تب غصے میں میرے شوہر نے مجھے یہ الفاظ کہے تھے کہ” اگر تم اپنے باپ کے ساتھ گئی تو یہ رشتہ ختم ہے” اور میں اپنے والد کے ساتھ واپس آگئی تھی وہ مجھے اس حال میں وہاں چھوڑنے پر تیار نہ تھے ۔ اب 4 ماہ بعد میرے شوہر نے رجوع کیا ہےاور  وہ آ کر مجھے واپس ساتھ لے جانا چاہتے ہیں، ان سے اس مسئلہ پر بات کی تھی تو انہوں نے کہا کہ میری ایسی کوئی نیت نہیں تھی ۔ اب مجھے اس مسئلہ کے بارے میں بتائیں کہ میری معلومات کے مطابق تو ایک طلاق بائن واقع ہوگئی۔اب آگے کیا حکم ہے اس کا؟ کیا دوبارہ نکاح ہوگا؟؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر شوہر اس بات پر قسم دیدے کہ میں نے مذکورہ جملے میں طلاق کی نیت نہیں کی تھی تو بیوی کے اپنے باپ کے ساتھ جانے کی وجہ سے کوئی طلاق واقع نہیں   ہوئی۔ اور اگر شوہر طلاق کی نیت نہ ہونے پر قسم دینے سے انکار کرے تو بیوی  باپ کے ساتھ جانے کی وجہ سے اپنے حق میں ایک بائنہ طلاق شمار کرے گی جس کے بعد میاں بیوی  کے اکٹھے رہنے کے لیے نیا مہر مقرر کر کے گواہوں  کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہے۔

توجیہ: "رشتہ ختم ہے” یہ الفاظ کنایہ کی دوسری قسم میں سے ہیں جن سے طلاق کا واقع ہونا رضا و غصہ کی حالت میں شوہر کی نیت پر موقوف ہوتا ہے۔ مذکورہ صورت میں شوہر نے غصے میں یہ الفاظ کہے تھے لہذا اگر شوہر کی نیت طلاق کی نہیں تھی تو کوئی طلاق واقع نہ ہوگی البتہ طلاق کی نیت نہ ہونے پر شوہر کو کم از کم  بیوی کے سامنے  قسم دینی پڑے گی اور اگر وہ قسم نہیں دیتا تو بیوی اپنے حق میں ایک بائنہ طلاق شمار کرے گی۔

ہندیہ (1/420)میں ہے:

وإذا أضافه الى الشرط وقع عقيب الشرط إتفاقا مثل أن يقول لإمرأته إن دخلت الدار فأنت طالق.

ہندیہ (1/ 375) میں ہے:

"ولو قال لها: لا نكاح بيني وبينك، أو قال: لم يبق بيني وبينك نكاح، يقع الطلاق إذا نوى”

درمختارمع ردالمحتار (4/521) میں ہے:

(وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا

و فى الشامية تحته: والحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة، والثاني في حالة الرضا والغضب فقط ويقع في حالة المذاكرة بلا نية، والثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط، ويقع حالة الغضب والمذاكرة بلا نية

درمختار (5/42) میں ہے:

(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع)

حاشیہ ابن عابدين (3/ 300) میں ہے:

 (تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرا (على ‌نية) ‌للاحتمال والقول له بيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله، فإن أبى رفعته للحاكم فإن نكل فرق بينهما مجتبى.

(وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا

امداد المفتین (ص527)   میں ہے:

’’** کا قول ہم سے تم سے کوئی تعلق نہیں یہ کنایہ طلاق ہے۔ صرح العالمگیریة والخلاصة حیث قال لم یبق بیني وبینك عمل أو شيئ وأمثال ذلك اور یہ کنایہ قسم ثانی میں داخل ہے۔‘‘

فتاویٰ حقانیہ (4/588) میں ہے:

"میرا تیرا معاملہ ختم ہوچکا ہے” یہ الفاظ طلاقِ کنائی کے ہیں ۔ اگر شوہر نے اس سے طلاق کی نیت کی ہو تو اس کی بیوی مطلقہ بائنہ ہوچکی ہے ورنہ الفاظ لغو ہیں۔لما في الهندية: لم يبق بيني وبينك عمل ونوى يقع

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved