• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

اگر تم بغیر اجازت گھر سے باہر نکلی یا تمہارے گھر سے تمہیں کوئی ملنے آیا تو تمہیں تین طلاقیں ہوجائیں گی

استفتاء

سائل پاکستان آرمی میں ملازم ہے۔ گھریلو مسئلہ میں درپیش ایک پریشانی کا حل در کار ہے۔ جس کے لیے آپ کو یہ عرض نامہ ارسال کر رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ آپ میرے مسئلے کا  شرعی اور ٹھوس حل تلاش فرما کر جواب ارسال فرمائیں گے۔مفتی صاحب یہ بات واضح طور پر عرض کرنا چاہوں گا کہ میرے مسئلہ کا فتویٰ کی قرآن و سنت کی روشنی میں بحوالہ اور کمپیوٹرائزڈ پرنٹ ارسال کیجئے گا تاکہ میں اپنی اہلیہ اور سسرال کو واضح مطمئن کر سکوں، آپ کی طرف   سے ارسال کیا گیا جواب میرے لیے واجب العمل اور حتمی ہوگا۔ مسئلہ کچھ یوں ہے:

1۔  میں نے اپنی بیوی کو کہا کہ "اگر تم  بغیر اجازت گھر سے باہر گئی یا تمہارے گھر سےتمہیں کوئی تمہارے میکے سے ملنے آیا تو تمہیں تین طلاقیں ہوجائیں گی” یہ نوبت اس کی سخت نافرمانی اور بدسلوکی کی بناء پر پیش آئی۔

2۔ یہ شرط لگانے کے بعد میں  گوجرانوالہ ڈیوٹی پر آگیا۔ اور ا س کے دو تین دن بعد میری بیوی کا والد ( میرا سسر ) اس گھر میں جہاں میں او رمیرا بھائی عرفان اپنے والدین کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ آگیا یعنی یہ گھر میرے اور*** کی ملکیت ہے۔ میرا سسر دراصل میری والد ہ کی عیادت اور میری پھوپھی کے انتقال پر ان سے تعزیت کے لیے آیا تھا۔ وہ صحن میں بیٹھا رہا اور وہاں میری بیوی اپنے باپ کو آکر ملی۔ وہ وہیں سے واپس اپنے گھر چلا گیا۔ مجھے اس واقعہ کا علم  کافی بعد میں ہوا۔ اور احباب کے کہنے پر اب یہ سوال سامنے آیا۔ اب جواب طلب بات یہ ہے کہ اس طرح میرے سسر کا لا علمی میں ہمارے گھر آنا اور اس کی بیٹی کا اس سے ملنا کیسا ہے۔ کیا اس صورت میں میری بیوی کو طلاق ہوگئی؟ اور اگر ہوگئی تو کیا تینوں طلاقیں ہوگئی۔ جبکہ اس میں میری بیوی کو یہ موقع نہ مل سکا کہ وہ اپنے اہل خانہ کو مطلع کر سکے کہ میرے شوہر نے فلاں فلاں  حد لگا دی ہے۔

ازراہ کرم مفصل جواب ارسال فرما کر  شکریہ کا موقع دیں۔ آپ تو جانتے ہیں کہ یہ دو زندگیوں کا مسئلہ ہے اور اس سے کس قدر  غلط نتائج یا دشمنی پیدا ہوسکتی ہے۔جواب کا منتظر رہوں گا۔

تنقیح: آپ کے سسر کی آپ کے گھر آتے وقت اپنی بیٹی سےملنے کی نیت تھی یا نہیں تھی؟

جواب: سائل نے فون پر بتایا کہ ان کے سسر کہتے ہیں کہ میری نیت نہیں تھی اور میں اس بات کو حلفاً کہہ سکتا ہوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں طلاق نہیں ہوئی اور آئندہ طلاق سےبچنے کے لیے شوہر بیوی  اور اس کے گھر والوں کو دونوں باتوں کی اجازت دے دے۔[1]  فقط واللہ تعالی اعلم

[1] مفتی رفیق صاحب کا جواب

” اگر تم بغیر اجازت گھر سے باہر نکلی یا تمہارے گھر سےتمہیں کوئی ملنے آیا تو تمہیں تین طلاقیں ہوجائیں گی”۔

شرط میں مذکور دوسرے جملے کا عطف پہلے پورے جملے پر ہو تو بیوی کے گھر سے اگر بیوی کو ملنے کوئی آیا خواہ اجازت سے ہو یا بلا اجازت تینوں طلاقیں ہو جائیں گی۔ اور اگر دوسرے جملے کا عطف پہلے جملے کے صرف اس حصے پر ہو ” گھر سے باہر نکلی” تو بغیر اجازت کا لفظ دوسرے جملے کے ساتھ بھی لگے گا۔

 اور اس صورت میں بیوی کے گھر سے کوئی شوہر کی اجازت کے بغیر بیوی سے ملنے آیا تو تینوں طلاقیں ہوجائیں گی ورنہ نہیں ہونگی۔

میرے خیال میں حسامی مذکور مندرجہ ذیل اصول کی وجہ سے چونکہ دوسرا جملہ فی نفسہ کامل ہے اس لیے عطف کی وجہ سے صرف حرف شرط تو اس کے ساتھ بھی لگے گا لیکن بغیر اجازت کا لفظ اس جملے کے ساتھ نہیں لگے گا۔ وہ اصول یہ ہے:

و منها أي من وجوه الفاسدة … أن القران في النظم يوجب القران في الحكم… و اعتبروا بالجملة الناقصة إذا عطفت على الكاملة و هزا فاسد لأن الشركة إنما وجبت في الجملة الناقصة لافتقارها إلى ما يتم به فإذا تم بنفسه لم تجب الشركة إلا فيما يفتقر إليه و لهذا قلنا في قول الرجل لامرأته إن دخلت الدار فأنت طالق و عبدي حر أن العتق يتعلق بالشرط لأنه في حق التعليق قاصر. (حسامی: 1/ 68 )

ہماری مذکورہ صورت میں بھی دوسرا جملہ صرف حرف شرط کی حد تک تو محتاج ہے لیکن بغیر اجازت کے لفظ کا محتاج نہیں۔ اس  صورت کے مطابق جواب مندرجہ ذیل بنے گا۔ مذکورہ صورت میں چونکہ باپ بیٹی سے ملنے نہیں آیا تھا بلکہ دوسرے کی تعزیت و عیادت کے لیے آیا تھا۔ اس لیے اس آنے کی وجہ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

لیکن آئندہ بیوی کے گھروالوں میں سےکوئی شخص بھی بیوی سے ملنے آیا یا بیوی بغیر اجازت کے گھر سے باہر نکلی تو تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔ اس لیے تین طلاقوں سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ سائل اپنی بیوی کو ایک طلاق بائن یوں کہہ کر دیدے کہ ” میں اپنی بیوی کو ایک طلاق بائن دیتاہوں”۔ اس کے بعد بیوی اپنی عدت پوری کرے اور جب عدت پوری ہوجائے تو بیوی کے گھروالوں  میں سےکوئی بیوی کو ملنے کی نیت سےآجائے اور مل جائے اور بیوی اجازت کے بغیر گھر سے باہر بھی نکل جائے۔ایسا کرنے سے یہ شرط آئندہ کے لیے ختم ہوجائے گی۔ اور دوبارہ اس سے کبھی طلاق واقع نہ ہوگی اس کے بعد سائل دوبارہ نکاح کر کے رہ سکتا ہے۔

لیکن بغیر اجازت کا لفظ دوسرے جملے کے ساتھ بھی ہوتو پھر جواب یہ ہوگا۔

" لیکن اگر آئندہ بیوی کے گھروالوں میں سے کوئی شخص بھی سائل کے اجازت کے بغیر بیوی سے ملنے آیا یا بیوی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نکلی تو تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔ اس لیے تین طلاقوں سےبچنے کی صورت یہ ہے کہ شوہر ائندہ کے لیے بیوی  کے گھر والوں کو ہمیشہ کے لیے ملنے کی اور بیوی کو ہمیشہ کے لیے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دیدے۔

و الحيلة في عدم الحنث أن يقول أذنت لك بالخروج في كل مرة أو يقول أذنت لك كلما خرجت فحينئذ لا يحنث. (1/  439 عالمگیری )۔ فقط  واللہ تعالیٰ اعلم

[1] مفتی رفیق صاحب کا جواب

” اگر تم بغیر اجازت گھر سے باہر نکلی یا تمہارے گھر سےتمہیں کوئی ملنے آیا تو تمہیں تین طلاقیں ہوجائیں گی”۔

شرط میں مذکور دوسرے جملے کا عطف پہلے پورے جملے پر ہو تو بیوی کے گھر سے اگر بیوی کو ملنے کوئی آیا خواہ اجازت سے ہو یا بلا اجازت تینوں طلاقیں ہو جائیں گی۔ اور اگر دوسرے جملے کا عطف پہلے جملے کے صرف اس حصے پر ہو ” گھر سے باہر نکلی” تو بغیر اجازت کا لفظ دوسرے جملے کے ساتھ بھی لگے گا۔

 اور اس صورت میں بیوی کے گھر سے کوئی شوہر کی اجازت کے بغیر بیوی سے ملنے آیا تو تینوں طلاقیں ہوجائیں گی ورنہ نہیں ہونگی۔

میرے خیال میں حسامی مذکور مندرجہ ذیل اصول کی وجہ سے چونکہ دوسرا جملہ فی نفسہ کامل ہے اس لیے عطف کی وجہ سے صرف حرف شرط تو اس کے ساتھ بھی لگے گا لیکن بغیر اجازت کا لفظ اس جملے کے ساتھ نہیں لگے گا۔ وہ اصول یہ ہے:

و منها أي من وجوه الفاسدة … أن القران في النظم يوجب القران في الحكم… و اعتبروا بالجملة الناقصة إذا عطفت على الكاملة و هزا فاسد لأن الشركة إنما وجبت في الجملة الناقصة لافتقارها إلى ما يتم به فإذا تم بنفسه لم تجب الشركة إلا فيما يفتقر إليه و لهذا قلنا في قول الرجل لامرأته إن دخلت الدار فأنت طالق و عبدي حر أن العتق يتعلق بالشرط لأنه في حق التعليق قاصر. (حسامی: 1/ 68 )

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved